Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Kashif Husain Ghair's Photo'

کاشف حسین غائر

1979 | کراچی, پاکستان

نئی نسل کے نمائندہ شاعر

نئی نسل کے نمائندہ شاعر

کاشف حسین غائر کے اشعار

2.9K
Favorite

باعتبار

حال پوچھا نہ کرے ہاتھ ملایا نہ کرے

میں اسی دھوپ میں خوش ہوں کوئی سایہ نہ کرے

ہماری زندگی پر موت بھی حیران ہے غائرؔ

نہ جانے کس نے یہ تاریخ پیدائش نکالی ہے

ان ستاروں میں کہیں تم بھی ہو

ان نظاروں میں کہیں میں بھی ہوں

کیا چاہتی ہے ہم سے ہماری یہ زندگی

کیا قرض ہے جو ہم سے ادا ہو نہیں رہا

دھوپ سائے کی طرح پھیل گئی

ان درختوں کی دعا لینے سے

کل رات جگاتی رہی اک خواب کی دوری

اور نیند بچھاتی رہی بستر مرے آگے

موت کا کیا کام جب اس شہر میں

زندگی جیسی بلا موجود ہے

زمیں آباد ہوتی جا رہی ہے

کہاں جائے گی تنہائی ہماری

نیند اڑنے لگی ہے آنکھوں سے

دھول جمنے لگی ہے بستر پر

زندگی دھوپ میں آنے سے کھلی

سایہ دیوار اٹھانے سے کھلا

شور جتنا ہے کائنات میں شور

میرے اندر کی خامشی سے ہوا

یہ ہوا یوں ہی خاک چھانتی ہے

یا کوئی چیز کھو گئی ہے یہاں

نہ ہم وحشت میں اپنے گھر سے نکلے

نہ صحرا اپنی ویرانی سے نکلا

ہماری زندگی پر موت بھی حیران ہے غائرؔ

نہ جانے کس نے یہ تاریخ پیدائش نکالی ہے

مجھ سے رستوں کا بچھڑنا نہیں دیکھا جاتا

مجھ سے ملنے وہ کسی موڑ پہ آیا نہ کرے

نظر ملی تو نظاروں میں بانٹ دی میں نے

یہ روشنی بھی ستاروں میں بانٹ دی میں نے

اک دن دکھ کی شدت کم پڑ جاتی ہے

کیسی بھی ہو وحشت کم پڑ جاتی ہے

ہمارے دل کی طرح شہر کے یہ رستے بھی

ہزار بھید چھپائے ہوئے سے لگتے ہیں

بنے ہیں کام سب الجھن سے میرے

یہی اطوار ہیں بچپن سے میرے

تیرا خیال تیری تمنا تک آ گیا

میں دل کو ڈھونڈھتا ہوا دنیا تک آ گیا

کیا کہیں اور دل کے بارے میں

ہم ملازم ہیں اس ادارے میں

پیڑ ہو یا کہ آدمی غائرؔ

سر بلند اپنی عاجزی سے ہوا

صحرا میں آ نکلے تو معلوم ہوا

تنہائی کو وسعت کم پڑ جاتی ہے

زندگی میں کسک ضروری تھی

یہ خلا پر تری کمی سے ہوا

میرے اندر کا شور ہے مجھ میں

ورنہ باہر تو خامشی ہے یہاں

زمیں ہموار ہو کر رہ گئی ہے

اڑی ہے دھول وہ دامن سے میرے

کچھ دیر بیٹھ جائیے دیوار کے قریب

کیا کہہ رہا ہے سایۂ دیوار جانیے

مجھ سے منسوب ہے غبار مرا

قافلے میں نہ کر شمار مرا

کچھ ایسی بھی دل کی باتیں ہوتی ہیں

جن باتوں کو خلوت کم پڑ جاتی ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے