Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Khumar Barabankavi's Photo'

خمار بارہ بنکوی

1919 - 1999 | بارہ بنکی, انڈیا

مقبول عام شاعر، فلمی نغمے بھی لکھے

مقبول عام شاعر، فلمی نغمے بھی لکھے

خمار بارہ بنکوی کے اشعار

62.4K
Favorite

باعتبار

بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدتوں میں ہم

قسطوں میں خودکشی کا مزا ہم سے پوچھئے

وہی پھر مجھے یاد آنے لگے ہیں

جنہیں بھولنے میں زمانے لگے ہیں

دشمنوں سے پیار ہوتا جائے گا

دوستوں کو آزماتے جائیے

یہ کہنا تھا ان سے محبت ہے مجھ کو

یہ کہنے میں مجھ کو زمانے لگے ہیں

خدا بچائے تری مست مست آنکھوں سے

فرشتہ ہو تو بہک جائے آدمی کیا ہے

محبت کو سمجھنا ہے تو ناصح خود محبت کر

کنارے سے کبھی اندازۂ طوفاں نہیں ہوتا

سنا ہے ہمیں وہ بھلانے لگے ہیں

تو کیا ہم انہیں یاد آنے لگے ہیں

حیرت ہے تم کو دیکھ کے مسجد میں اے خمارؔ

کیا بات ہو گئی جو خدا یاد آ گیا

دوسروں پر اگر تبصرہ کیجئے

سامنے آئنہ رکھ لیا کیجئے

اب ان حدود میں لایا ہے انتظار مجھے

وہ آ بھی جائیں تو آئے نہ اعتبار مجھے

حد سے بڑھے جو علم تو ہے جہل دوستو

سب کچھ جو جانتے ہیں وہ کچھ جانتے نہیں

ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی

جذبات میں وہ پہلی سی شدت نہیں رہی

مرے راہ بر مجھ کو گمراہ کر دے

سنا ہے کہ منزل قریب آ گئی ہے

غم ہے نہ اب خوشی ہے نہ امید ہے نہ یاس

سب سے نجات پائے زمانے گزر گئے

تجھ کو برباد تو ہونا تھا بہرحال خمارؔ

ناز کر ناز کہ اس نے تجھے برباد کیا

چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں

نیا ہے زمانہ نئی روشنی ہے

گزرے ہیں میکدے سے جو توبہ کے بعد ہم

کچھ دور عادتاً بھی قدم ڈگمگائے ہیں

یاد کرنے پہ بھی دوست آئے نہ یاد

دوستوں کے کرم یاد آتے رہے

ہٹائے تھے جو راہ سے دوستوں کی

وہ پتھر مرے گھر میں آنے لگے ہیں

الٰہی مرے دوست ہوں خیریت سے

یہ کیوں گھر میں پتھر نہیں آ رہے ہیں

آج ناگاہ ہم کسی سے ملے

بعد مدت کے زندگی سے ملے

صحرا کو بہت ناز ہے ویرانی پہ اپنی

واقف نہیں شاید مرے اجڑے ہوئے گھر سے

او جانے والے آ کہ ترے انتظار میں

رستے کو گھر بنائے زمانے گزر گئے

عقل و دل اپنی اپنی کہیں جب خمارؔ

عقل کی سنیے دل کا کہا کیجئے

یہ وفا کی سخت راہیں یہ تمہارے پاؤں نازک

نہ لو انتقام مجھ سے مرے ساتھ ساتھ چل کے

پھول کر لے نباہ کانٹوں سے

آدمی ہی نہ آدمی سے ملے

رات باقی تھی جب وہ بچھڑے تھے

کٹ گئی عمر رات باقی ہے

ہاتھ اٹھتا نہیں ہے دل سے خمارؔ

ہم انہیں کس طرح سلام کریں

جھنجھلائے ہیں لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں

کس اہتمام سے انہیں ہم یاد آئے ہیں

دشمنوں سے پشیمان ہونا پڑا ہے

دوستوں کا خلوص آزمانے کے بعد

روشنی کے لیے دل جلانا پڑا

کیسی ظلمت بڑھی تیرے جانے کے بعد

مجھے تو ان کی عبادت پہ رحم آتا ہے

جبیں کے ساتھ جو سجدے میں دل جھکا نہ سکے

ہم پہ گزرا ہے وہ بھی وقت خمارؔ

جب شناسا بھی اجنبی سے ملے

نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے

دیا جل رہا ہے ہوا چل رہی ہے

مجھے کو محرومئ نظارہ قبول

آپ جلوے نہ اپنے عام کریں

جلتے دیوں میں جلتے گھروں جیسی ضو کہاں

سرکار روشنی کا مزا ہم سے پوچھئے

نہ تو ہوش سے تعارف نہ جنوں سے آشنائی

یہ کہاں پہنچ گئے ہیں تری بزم سے نکل کے

ہم بھی کر لیں جو روشنی گھر میں

پھر اندھیرے کہاں قیام کریں

حال غم کہہ کے غم بڑھا بیٹھے

تیر مارے تھے تیر کھا بیٹھے

کہیں شعر و نغمہ بن کے کہیں آنسوؤں میں ڈھل کے

وہ مجھے ملے تو لیکن کئی صورتیں بدل کے

اک گزارش ہے حضرت ناصح

آپ اب اور کوئی کام کریں

آپ نے دن بنا دیا تھا جسے

زندگی بھر وہ رات یاد آئی

Recitation

بولیے