Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Khurshid Rabbani's Photo'

خورشید ربانی

1973

خورشید ربانی کے اشعار

707
Favorite

باعتبار

یہ کون آگ لگانے پہ ہے یہاں مامور

یہ کون شہر کو مقتل بنانے والا ہے

اتر کے شاخ سے اک ایک زرد پتے نے

نئی رتوں کے لیے راستہ بنایا تھا

یہ دل کہ زرد پڑا تھا کئی زمانوں سے

میں تیرا نام لیا اور بہار آ گئی ہے

ترا بخشا ہوا اک زخم پیارے

چلی ٹھنڈی ہوا جلنے لگا ہے

میں ہوں اک پیکر خیال و خواب

اور کتنی بڑی حقیقت ہوں

کسی خیال کسی خواب کے لیے خورشیدؔ

دیا دریچے میں رکھا تھا دل جلایا تھا

وہ تغافل شعار کیا جانے

عشق تو حسن کی ضرورت ہے

کوئی نہیں جو مٹائے مری سیہ بختی

فلک پہ کتنے ستارے ہیں جگمگائے ہوئے

ذرا سی دیر کو اس نے پلٹ کے دیکھا تھا

ذرا سی بات کا چرچا کہاں کہاں ہوا ہے

وحشتیں عشق اور مجبوری

کیا کسی خاص امتحان میں ہوں

ماتمی کپڑے پہن لیے تھے میری زمیں نے

اور فلک نے چاند ستارہ پہن لیا تھا

ہوائے تازہ کا جھونکا ادھر سے کیا گزرا

گرے پڑے ہوئے پتوں میں جان آ گئی ہے

کسی نے میری طرف دیکھنا نہ تھا خورشیدؔ

تو بے سبب ہی سنوارا گیا تھا کیوں مجھ کو

یہ کار محبت بھی کیا کار محبت ہے

اک حرف تمنا ہے اور اس کی پذیرائی

کس کی خاطر اجاڑ رستے پر

پھول لے کر شجر کھڑا ہوا تھا

خوابوں کی میں نے ایک عمارت بنائی اور

یادوں کا اس میں ایک دریچہ بنا لیا

خدا کرے کہ کھلے ایک دن زمانے پر

مری کہانی میں جو استعارہ خواب کا ہے

دیکھ کر بھی نہ دیکھنا اس کا

یہ ادا تو بتوں میں ہوتی ہے

Recitation

بولیے