Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Munawwar Rana's Photo'

منور رانا

1952 - 2024 | لکھنؤ, انڈیا

معروف شاعر، مشاعروں میں بے انتہا مقبول

معروف شاعر، مشاعروں میں بے انتہا مقبول

منور رانا کے اشعار

95.8K
Favorite

باعتبار

بلندی دیر تک کس شخص کے حصے میں رہتی ہے

بہت اونچی عمارت ہر گھڑی خطرے میں رہتی ہے

اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے

ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے

عدالتوں ہی سے انصاف سرخ رو ہے مگر

عدالتوں ہی میں انصاف ہار جاتا ہے

برباد کر دیا ہمیں پردیس نے مگر

ماں سب سے کہہ رہی ہے کہ بیٹا مزے میں ہے

یہ سوچ کر کہ ترا انتظار لازم ہے

تمام عمر گھڑی کی طرف نہیں دیکھا

بھٹکتی ہے ہوس دن رات سونے کی دکانوں میں

غریبی کان چھدواتی ہے تنکا ڈال دیتی ہے

عشق ہے تو عشق کا اظہار ہونا چاہئے

آپ کو چہرے سے بھی بیمار ہونا چاہئے

میں نے روتے ہوئے پونچھے تھے کسی دن آنسو

مدتوں ماں نے نہیں دھویا دوپٹہ اپنا

دیکھنا ہے تجھے صحرا تو پریشاں کیوں ہے

کچھ دنوں کے لیے مجھ سے مری آنکھیں لے جا

دہلیز پر سر کھولے کھڑی ہوگی ضرورت

اب ایسے میں گھر جانا مناسب نہیں ہوگا

نیکیاں گننے کی نوبت ہی نہیں آئے گی

میں نے جو ماں پہ لکھا ہے وہی کافی ہوگا

وہ آدمی ہے تو احساس جرم کافی ہے

وہ سنگ ہے تو اسے سنگسار کیا کرنا

میں دنیا کے معیار پہ پورا نہیں اترا

دنیا مرے معیار پہ پوری نہیں اتری

ماں خواب میں آ کر یہ بتا جاتی ہے ہر روز

بوسیدہ سی اوڑھی ہوئی اس شال میں ہم ہیں

مصیبت کے دنوں میں ماں ہمیشہ ساتھ رہتی ہے

پیمبر کیا پریشانی میں امت چھوڑ سکتا ہے

گر کبھی رونا ہی پڑ جائے تو اتنا رونا

آ کے برسات ترے سامنے توبہ کر لے

یہیں رہوں گا کہیں عمر بھر نہ جاؤں گا

زمین ماں ہے اسے چھوڑ کر نہ جاؤں گا

لبوں پہ اس کے کبھی بد دعا نہیں ہوتی

بس ایک ماں ہے جو مجھ سے خفا نہیں ہوتی

مٹی کا بدن کر دیا مٹی کے حوالے

مٹی کو کہیں تاج محل میں نہیں رکھا

تمہیں بھی نیند سی آنے لگی ہے تھک گئے ہم بھی

چلو ہم آج یہ قصہ ادھورا چھوڑ دیتے ہیں

فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں

وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں

اے خاک وطن تجھ سے میں شرمندہ بہت ہوں

مہنگائی کے موسم میں یہ تہوار پڑا ہے

ایسا لگتا ہے کہ وہ بھول گیا ہے ہم کو

اب کبھی کھڑکی کا پردا نہیں بدلا جاتا

ہنس کے ملتا ہے مگر کافی تھکی لگتی ہیں

اس کی آنکھیں کئی صدیوں کی جگی لگتی ہیں

بھلے لگتے ہیں اسکولوں کی یونیفارم میں بچے

کنول کے پھول سے جیسے بھرا تالاب رہتا ہے

کسی کی یاد آتی ہے تو یہ بھی یاد آتا ہے

کہیں چلنے کی ضد کرنا مرا تیار ہو جانا

شعر جیسا بھی ہو اس شہر میں پڑھ سکتے ہو

چائے جیسی بھی ہو آسام میں بک جاتی ہے

میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں

صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں رہنے دیا

اسٹیشن سے باہر آ کر بوڑھی آنکھیں سوچ رہی ہیں

پتے دیہاتی رہتے ہیں پھل شہری ہو جاتے ہیں

سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر

مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے

تمہاری آنکھوں کی توہین ہے ذرا سوچو

تمہارا چاہنے والا شراب پیتا ہے

تم نے جب شہر کو جنگل میں بدل ڈالا ہے

پھر تو اب قیس کو جنگل سے نکل آنے دو

سگی بہنوں کا جو رشتہ ہے اردو اور ہندی میں

کہیں دنیا کی دو زندہ زبانوں میں نہیں ملتا

ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا

میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے

کسی دن میری رسوائی کا یہ کارن نہ بن جائے

تمہارا شہر سے جانا مرا بیمار ہو جانا

کھلونوں کے لئے بچے ابھی تک جاگتے ہوں گے

تجھے اے مفلسی کوئی بہانہ ڈھونڈ لینا ہے

ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے

تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا

وسعت صحرا بھی منہ اپنا چھپا کر نکلی

ساری دنیا مرے کمرے کے برابر نکلی

محبت ایک پاکیزہ عمل ہے اس لیے شاید

سمٹ کر شرم ساری ایک بوسے میں چلی آئی

اس میں بچوں کی جلی لاشوں کی تصویریں ہیں

دیکھنا ہاتھ سے اخبار نہ گرنے پائے

جو چھپا لیتا ہے دیوار کی عریانی کو

دوستو ایسا کلنڈر نہیں پھینکا جاتا

تمہارا نام آیا اور ہم تکنے لگے رستہ

تمہاری یاد آئی اور کھڑکی کھول دی ہم نے

شہر کے رستے ہوں چاہے گاؤں کی پگڈنڈیاں

ماں کی انگلی تھام کر چلنا بہت اچھا لگا

شاید جلی ہیں پھر کہیں نزدیک بستیاں

گزرے ہیں کچھ پرندے ادھر سے ڈرے ہوئے

دولت سے محبت تو نہیں تھی مجھے لیکن

بچوں نے کھلونوں کی طرف دیکھ لیا تھا

آنکھوں سے مانگنے لگے پانی وضو کا ہم

کاغذ پہ جب بھی دیکھ لیا ماں لکھا ہوا

بھٹکتی ہے ہوس دن رات سونے کی دکانوں پر

غریبی کان چھدواتی ہے تنکا ڈال لیتی ہے

تجھے معلوم ہے ان پھیپھڑوں میں زخم آئے ہیں

تری یادوں کی اک ننھی سی چنگاری بچانے میں

منورؔ ماں کے آگے یوں کبھی کھل کر نہیں رونا

جہاں بنیاد ہو اتنی نمی اچھی نہیں ہوتی

کھانے کی چیزیں ماں نے جو بھیجی ہیں گاؤں سے

باسی بھی ہو گئی ہیں تو لذت وہی رہی

Recitation

بولیے