منور رانا کے اشعار
بلندی دیر تک کس شخص کے حصے میں رہتی ہے
بہت اونچی عمارت ہر گھڑی خطرے میں رہتی ہے
-
موضوع : شہرت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے
عدالتوں ہی سے انصاف سرخ رو ہے مگر
عدالتوں ہی میں انصاف ہار جاتا ہے
برباد کر دیا ہمیں پردیس نے مگر
ماں سب سے کہہ رہی ہے کہ بیٹا مزے میں ہے
یہ سوچ کر کہ ترا انتظار لازم ہے
تمام عمر گھڑی کی طرف نہیں دیکھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بھٹکتی ہے ہوس دن رات سونے کی دکانوں میں
غریبی کان چھدواتی ہے تنکا ڈال دیتی ہے
عشق ہے تو عشق کا اظہار ہونا چاہئے
آپ کو چہرے سے بھی بیمار ہونا چاہئے
میں نے روتے ہوئے پونچھے تھے کسی دن آنسو
مدتوں ماں نے نہیں دھویا دوپٹہ اپنا
دیکھنا ہے تجھے صحرا تو پریشاں کیوں ہے
کچھ دنوں کے لیے مجھ سے مری آنکھیں لے جا
دہلیز پر سر کھولے کھڑی ہوگی ضرورت
اب ایسے میں گھر جانا مناسب نہیں ہوگا
نیکیاں گننے کی نوبت ہی نہیں آئے گی
میں نے جو ماں پہ لکھا ہے وہی کافی ہوگا
وہ آدمی ہے تو احساس جرم کافی ہے
وہ سنگ ہے تو اسے سنگسار کیا کرنا
میں دنیا کے معیار پہ پورا نہیں اترا
دنیا مرے معیار پہ پوری نہیں اتری
ماں خواب میں آ کر یہ بتا جاتی ہے ہر روز
بوسیدہ سی اوڑھی ہوئی اس شال میں ہم ہیں
مصیبت کے دنوں میں ماں ہمیشہ ساتھ رہتی ہے
پیمبر کیا پریشانی میں امت چھوڑ سکتا ہے
گر کبھی رونا ہی پڑ جائے تو اتنا رونا
آ کے برسات ترے سامنے توبہ کر لے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہیں رہوں گا کہیں عمر بھر نہ جاؤں گا
زمین ماں ہے اسے چھوڑ کر نہ جاؤں گا
لبوں پہ اس کے کبھی بد دعا نہیں ہوتی
بس ایک ماں ہے جو مجھ سے خفا نہیں ہوتی
مٹی کا بدن کر دیا مٹی کے حوالے
مٹی کو کہیں تاج محل میں نہیں رکھا
تمہیں بھی نیند سی آنے لگی ہے تھک گئے ہم بھی
چلو ہم آج یہ قصہ ادھورا چھوڑ دیتے ہیں
فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں
اے خاک وطن تجھ سے میں شرمندہ بہت ہوں
مہنگائی کے موسم میں یہ تہوار پڑا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ایسا لگتا ہے کہ وہ بھول گیا ہے ہم کو
اب کبھی کھڑکی کا پردا نہیں بدلا جاتا
ہنس کے ملتا ہے مگر کافی تھکی لگتی ہیں
اس کی آنکھیں کئی صدیوں کی جگی لگتی ہیں
بھلے لگتے ہیں اسکولوں کی یونیفارم میں بچے
کنول کے پھول سے جیسے بھرا تالاب رہتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کسی کی یاد آتی ہے تو یہ بھی یاد آتا ہے
کہیں چلنے کی ضد کرنا مرا تیار ہو جانا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
شعر جیسا بھی ہو اس شہر میں پڑھ سکتے ہو
چائے جیسی بھی ہو آسام میں بک جاتی ہے
-
موضوع : چائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں
صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں رہنے دیا
اسٹیشن سے باہر آ کر بوڑھی آنکھیں سوچ رہی ہیں
پتے دیہاتی رہتے ہیں پھل شہری ہو جاتے ہیں
سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
-
موضوع : مزدور
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تمہاری آنکھوں کی توہین ہے ذرا سوچو
تمہارا چاہنے والا شراب پیتا ہے
تم نے جب شہر کو جنگل میں بدل ڈالا ہے
پھر تو اب قیس کو جنگل سے نکل آنے دو
سگی بہنوں کا جو رشتہ ہے اردو اور ہندی میں
کہیں دنیا کی دو زندہ زبانوں میں نہیں ملتا
ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا
میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے
کسی دن میری رسوائی کا یہ کارن نہ بن جائے
تمہارا شہر سے جانا مرا بیمار ہو جانا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کھلونوں کے لئے بچے ابھی تک جاگتے ہوں گے
تجھے اے مفلسی کوئی بہانہ ڈھونڈ لینا ہے
ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا
وسعت صحرا بھی منہ اپنا چھپا کر نکلی
ساری دنیا مرے کمرے کے برابر نکلی
محبت ایک پاکیزہ عمل ہے اس لیے شاید
سمٹ کر شرم ساری ایک بوسے میں چلی آئی
اس میں بچوں کی جلی لاشوں کی تصویریں ہیں
دیکھنا ہاتھ سے اخبار نہ گرنے پائے
جو چھپا لیتا ہے دیوار کی عریانی کو
دوستو ایسا کلنڈر نہیں پھینکا جاتا
تمہارا نام آیا اور ہم تکنے لگے رستہ
تمہاری یاد آئی اور کھڑکی کھول دی ہم نے
شہر کے رستے ہوں چاہے گاؤں کی پگڈنڈیاں
ماں کی انگلی تھام کر چلنا بہت اچھا لگا
شاید جلی ہیں پھر کہیں نزدیک بستیاں
گزرے ہیں کچھ پرندے ادھر سے ڈرے ہوئے
دولت سے محبت تو نہیں تھی مجھے لیکن
بچوں نے کھلونوں کی طرف دیکھ لیا تھا
آنکھوں سے مانگنے لگے پانی وضو کا ہم
کاغذ پہ جب بھی دیکھ لیا ماں لکھا ہوا
بھٹکتی ہے ہوس دن رات سونے کی دکانوں پر
غریبی کان چھدواتی ہے تنکا ڈال لیتی ہے
تجھے معلوم ہے ان پھیپھڑوں میں زخم آئے ہیں
تری یادوں کی اک ننھی سی چنگاری بچانے میں
منورؔ ماں کے آگے یوں کبھی کھل کر نہیں رونا
جہاں بنیاد ہو اتنی نمی اچھی نہیں ہوتی