Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Qamar Abbas Qamar's Photo'

قمر عباس قمر

1993 | دلی, انڈیا

نئی نسل کے نمائندہ شاعر، نوجوانوں میں مقبول، غزل کی شاعری کی ایک منفرد آواز

نئی نسل کے نمائندہ شاعر، نوجوانوں میں مقبول، غزل کی شاعری کی ایک منفرد آواز

قمر عباس قمر کے اشعار

1.3K
Favorite

باعتبار

تشنہ لب ایسا کہ ہونٹوں پہ پڑے ہیں چھالے

مطمئن ایسا ہوں دریا کو بھی حیرانی ہے

میرے ماتھے پہ ابھر آتے تھے وحشت کے نقوش

میری مٹی کسی صحرا سے اٹھائی گئی تھی

پہاڑ پیڑ ندی ساتھ دے رہے ہیں مرا

یہ تیری اور مرا آخری سفر تو نہیں

یہ احتجاج عجب ہے خلاف تیغ ستم

زمیں میں جذب نہیں ہو رہا ہے خوں میرا

سرد راتوں کا تقاضہ تھا بدن جل جاے

پھر وہ اک آگ جو سینہ سے لگائی میں نے

بہت غرور تھا سورج کو اپنی شدت پر

سو ایک پل ہی سہی بادلوں سے ہار گیا

مجنوں سے یہ کہنا کہ مرے شہر میں آ جائے

وحشت کے لیے ایک بیابان ابھی ہے

میں رو پڑوں گا بہت بھینچ کے گلے نہ لگا

میں پہلے جیسا نہیں ہوں کسی کا دکھ ہے مجھے

پلٹنے والے پرندوں پہ بد حواسی ہے

میں اس زمیں کا کہیں آخری شجر تو نہیں

اب کہ ممکن ہے زمیں خون کی پیاسی نہ رہے

اک قبیلے نے میری بات نہیں مانی ہے

یوں رات گئے کس کو صدا دیتے ہیں اکثر

وہ کون ہمارا تھا جو واپس نہیں آیہ

مجھے بچا لے مرے یار سوز امشب سے

کہ اک ستارۂ وحشت جبیں سے گزرے گا

الگ الگ سی ہے سمتوں کا اب سفر درپیش

تمہارا ہاتھ مرے ہاتھ سے جدا بھی نہیں

اس کے ٹھہراؤ سے تھم جاتی ہے سب موج حیات

یعنی دریا میں نہیں سانس میں گہرائی ہے

شدت غم سے کوئی غم بھی نہیں ہو پایا

جانے والے ترا ماتم بھی نہیں ہو پایا

ہم وہ ناداں تھے جو شہروں کو سکوں جانتے تھے

تم نہیں آئے ادھر تم نے سمجھ داری کی

انا نے دونوں کے بیچ نفرت کی ایک دیوار کھینچ دی ہے

ادھر سے آنے کا مسئلہ ہے ادھر سے جانے کا مسئلہ ہے

خزاں رتوں کے پرندو! پلٹ کے آ جاؤ

درخت دینے لگے ہیں ہری بھری آواز

Recitation

بولیے