قمر عباس قمر کے اشعار
تشنہ لب ایسا کہ ہونٹوں پہ پڑے ہیں چھالے
مطمئن ایسا ہوں دریا کو بھی حیرانی ہے
میرے ماتھے پہ ابھر آتے تھے وحشت کے نقوش
میری مٹی کسی صحرا سے اٹھائی گئی تھی
-
موضوع : وحشت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ احتجاج عجب ہے خلاف تیغ ستم
زمیں میں جذب نہیں ہو رہا ہے خوں میرا
پہاڑ پیڑ ندی ساتھ دے رہے ہیں مرا
یہ تیری اور مرا آخری سفر تو نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مجنوں سے یہ کہنا کہ مرے شہر میں آ جائے
وحشت کے لیے ایک بیابان ابھی ہے
اب کہ ممکن ہے زمیں خون کی پیاسی نہ رہے
اک قبیلے نے میری بات نہیں مانی ہے
-
موضوع : خون
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بہت غرور تھا سورج کو اپنی شدت پر
سو ایک پل ہی سہی بادلوں سے ہار گیا
سرد راتوں کا تقاضہ تھا بدن جل جاے
پھر وہ اک آگ جو سینہ سے لگائی میں نے
یوں رات گئے کس کو صدا دیتے ہیں اکثر
وہ کون ہمارا تھا جو واپس نہیں آیہ
مجھے بچا لے مرے یار سوز امشب سے
کہ اک ستارۂ وحشت جبیں سے گزرے گا
-
موضوع : وحشت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
الگ الگ سی ہے سمتوں کا اب سفر درپیش
تمہارا ہاتھ مرے ہاتھ سے جدا بھی نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پلٹنے والے پرندوں پہ بد حواسی ہے
میں اس زمیں کا کہیں آخری شجر تو نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں رو پڑوں گا بہت بھینچ کے گلے نہ لگا
میں پہلے جیسا نہیں ہوں کسی کا دکھ ہے مجھے
اس کے ٹھہراؤ سے تھم جاتی ہے سب موج حیات
یعنی دریا میں نہیں سانس میں گہرائی ہے
شدت غم سے کوئی غم بھی نہیں ہو پایا
جانے والے ترا ماتم بھی نہیں ہو پایا
ہم وہ ناداں تھے جو شہروں کو سکوں جانتے تھے
تم نہیں آئے ادھر تم نے سمجھ داری کی
خزاں رتوں کے پرندو! پلٹ کے آ جاؤ
درخت دینے لگے ہیں ہری بھری آواز
انا نے دونوں کے بیچ نفرت کی ایک دیوار کھینچ دی ہے
ادھر سے آنے کا مسئلہ ہے ادھر سے جانے کا مسئلہ ہے