Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Saifuddin Saif's Photo'

سیف الدین سیف

1922 - 1993 | لاہور, پاکستان

پاکستانی شاعر اور نغمہ نگار

پاکستانی شاعر اور نغمہ نگار

سیف الدین سیف کے اشعار

7K
Favorite

باعتبار

سیفؔ انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے

ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں

اس مسافر کی نقاہت کا ٹھکانہ کیا ہے

سنگ منزل جسے دیوار نظر آنے لگے

شور دن کو نہیں سونے دیتا

شب کو سناٹا جگا دیتا ہے

مری داستان حسرت وہ سنا سنا کے روئے

مرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے

تم کو بیگانے بھی اپناتے ہیں میں جانتا ہوں

میرے اپنے بھی پرائے ہیں تمہیں کیا معلوم

ایسے لمحے بھی گزارے ہیں تری فرقت میں

جب تری یاد بھی اس دل پہ گراں گزری ہے

کوئی ایسا اہل دل ہو کہ فسانۂ محبت

میں اسے سنا کے روؤں وہ مجھے سنا کے روئے

آج کی رات وہ آئے ہیں بڑی دیر کے بعد

آج کی رات بڑی دیر کے بعد آئی ہے

کیا قیامت ہے ہجر کے دن بھی

زندگی میں شمار ہوتے ہیں

تھکی تھکی سی فضائیں بجھے بجھے تارے

بڑی اداس گھڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

تم نے دیوانہ بنایا مجھ کو

لوگ افسانہ بنائیں گے تمہیں

تمہارے بعد خدا جانے کیا ہوا دل کو

کسی سے ربط بڑھانے کا حوصلہ نہ ہوا

زندگی کس طرح کٹے گی سیفؔ

رات کٹتی نظر نہیں آتی

کتنا بیکار تمنا کا سفر ہوتا ہے

کل کی امید پہ ہر آج بسر ہوتا ہے

ہمیں خبر ہے وہ مہمان ایک رات کا ہے

ہمارے پاس بھی سامان ایک رات کا ہے

دل ویراں کو دیکھتے کیا ہو

یہ وہی آرزو کی بستی ہے

بولے وہ کچھ ایسی بے رخی سے

دل ہی میں رہا سوال اپنا

غم گسارو بہت اداس ہوں میں

آج بہلا سکو تو آ جاؤ

پاس آئے تو اور ہو گئے دور

یہ کتنے عجیب فاصلے ہیں

جس دن سے بھلا دیا ہے تو نے

آتا ہی نہیں خیال اپنا

جی نہیں آپ سے کیا مجھ کو شکایت ہوگی

ہاں مجھے تلخئ حالات پہ رونا آیا

حسن جلوہ دکھا گیا اپنا

عشق بیٹھا رہا اداس کہیں

کتنے انجان ہیں کیا سادگی سے پوچھتے ہیں

کہیے کیا میری کسی بات پہ رونا آیا

کیسے جیتے ہیں یہ کس طرح جیے جاتے ہیں

اہل دل کی بسر اوقات پہ رونا آیا

پھول اس خاکداں کے ہم بھی ہیں

مدعی دو جہاں کے ہم بھی ہیں

کبھی جگر پہ کبھی دل پہ چوٹ پڑتی ہے

تری نظر کے نشانے بدلتے رہتے ہیں

یہ آلام ہستی یہ دور زمانہ

تو کیا اب تمہیں بھول جانا پڑے گا

شاید تمہارے ساتھ بھی واپس نہ آ سکیں

وہ ولولے جو ساتھ تمہارے چلے گئے

آپ ٹھہرے ہیں تو ٹھہرا ہے نظام عالم

آپ گزرے ہیں تو اک موج رواں گزری ہے

میرا ہونا بھی کوئی ہونا ہے

میری ہستی بھی کوئی ہستی ہے

چلو میکدے میں بسیرا ہی کر لو

نہ آنا پڑے گا نہ جانا پڑے گا

دل ناداں تری حالت کیا ہے

تو نہ اپنوں میں نہ بیگانوں میں

دشمن گئے تو کشمکش دوستی گئی

دشمن گئے کہ دوست ہمارے چلے گئے

دل نے پایا قرار پہلو میں

گردش کائنات ختم ہوئی

کیوں اجڑ جاتی ہے دل کی محفل

یہ دیا کون بجھا دیتا ہے

اپنی وسعت میں کھو چکا ہوں میں

راہ دکھلا سکو تو آ جاؤ

قریب نزع بھی کیوں چین لے سکے کوئی

نقاب رخ سے اٹھا لو تمہیں کسی سے کیا

رات گزرے نہ درد دل ٹھہرے

کچھ تو بڑھ جائے کچھ تو گھٹ جائے

سیفؔ پی کر بھی تشنگی نہ گئی

اب کے برسات اور ہی کچھ تھی

Recitation

بولیے