Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shahid Kamal's Photo'

شاہد کمال

1982 | لکھنؤ, انڈیا

شاہد کمال کے اشعار

718
Favorite

باعتبار

جب ڈوب کے مرنا ہے تو کیا سوچ رہے ہو

ان جھیل سی آنکھوں میں اتر کیوں نہیں جاتے

جنگ کا شور بھی کچھ دیر تو تھم سکتا ہے

پھر سے اک امن کی افواہ اڑا دی جائے

یہ کیسا دشت تحیر ہے یاں سے کوچ کرو

ہمارے پاؤں سے رفتار کھینچتا ہے کوئی

تو میرے ساتھ نہیں ہے تو سوچتا ہوں میں

کہ اب تو تجھ سے بچھڑنے کا کوئی ڈر بھی نہیں

شاخ مژگاں پہ مہکنے لگے زخموں کے گلاب

پچھلے موسم کی ملاقات کی بو زندہ ہے

ان دنوں اپنی بھی وحشت کا عجب عالم ہے

گھر میں ہم دشت و بیابان اٹھا لائے ہیں

ہوا کی ڈور میں ٹوٹے ہوئے تارے پروتی ہے

یہ تنہائی عجب لڑکی ہے سناٹے میں روتی ہے

ہاں وضع احتیاط کا قائل نہیں ہوں میں

جو زخم ہے جگر میں چھپانے سے میں رہا

چشم خوش آب کی تمثیل میں رہنے والے

ہم پرندے ہیں اسی جھیل میں رہنے والے

اک نئے طرز پہ آباد کریں گے اس کو

ہم ترے شہر کی پہچان اٹھا لائے ہیں

اس عاجزی سے کیا اس نے میرے سر کا سوال

خود اپنے ہاتھ سے تلوار توڑ دی میں نے

ریت پر وہ پڑی ہے مشک کوئی

تیر بھی اور کمان سا کچھ ہے

بریدہ سر کو سجا دے فصیل نیزہ پر

دریدہ جسم کو پھر عرصۂ قتال میں رکھ

تیر مت دیکھ مرے زخم کو دیکھ

یار یار اپنا عدو میں گم ہے

کس لئے کرتے ہو تم حرف ملامت سے گریز

ہم کہاں صحبت جبریل میں رہنے والے

Recitation

بولیے