شاہد کمال کے اشعار
جب ڈوب کے مرنا ہے تو کیا سوچ رہے ہو
ان جھیل سی آنکھوں میں اتر کیوں نہیں جاتے
-
موضوع : آنکھ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جنگ کا شور بھی کچھ دیر تو تھم سکتا ہے
پھر سے اک امن کی افواہ اڑا دی جائے
یہ کیسا دشت تحیر ہے یاں سے کوچ کرو
ہمارے پاؤں سے رفتار کھینچتا ہے کوئی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تو میرے ساتھ نہیں ہے تو سوچتا ہوں میں
کہ اب تو تجھ سے بچھڑنے کا کوئی ڈر بھی نہیں
ان دنوں اپنی بھی وحشت کا عجب عالم ہے
گھر میں ہم دشت و بیابان اٹھا لائے ہیں
شاخ مژگاں پہ مہکنے لگے زخموں کے گلاب
پچھلے موسم کی ملاقات کی بو زندہ ہے
ہوا کی ڈور میں ٹوٹے ہوئے تارے پروتی ہے
یہ تنہائی عجب لڑکی ہے سناٹے میں روتی ہے
-
موضوع : تنہائی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہاں وضع احتیاط کا قائل نہیں ہوں میں
جو زخم ہے جگر میں چھپانے سے میں رہا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اک نئے طرز پہ آباد کریں گے اس کو
ہم ترے شہر کی پہچان اٹھا لائے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اس عاجزی سے کیا اس نے میرے سر کا سوال
خود اپنے ہاتھ سے تلوار توڑ دی میں نے
-
موضوع : عاجزی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
چشم خوش آب کی تمثیل میں رہنے والے
ہم پرندے ہیں اسی جھیل میں رہنے والے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تیر مت دیکھ مرے زخم کو دیکھ
یار یار اپنا عدو میں گم ہے
-
موضوع : تیر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کس لئے کرتے ہو تم حرف ملامت سے گریز
ہم کہاں صحبت جبریل میں رہنے والے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بریدہ سر کو سجا دے فصیل نیزہ پر
دریدہ جسم کو پھر عرصۂ قتال میں رکھ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ