Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Zafar Iqbal's Photo'

ظفر اقبال

1933 | لاہور, پاکستان

ممتاز ترین جدید شاعروں میں معروف ۔ رجحان سازشاعر

ممتاز ترین جدید شاعروں میں معروف ۔ رجحان سازشاعر

ظفر اقبال کے اشعار

51.9K
Favorite

باعتبار

جب نظارے تھے تو آنکھوں کو نہیں تھی پروا

اب انہی آنکھوں نے چاہا تو نظارے نہیں تھے

ہم اتنی روشنی میں دیکھ بھی سکتے نہیں اس کو

سو اپنے آپ ہی اس چاند کو گہنائے رکھتے ہیں

راستے ہیں کھلے ہوئے سارے

پھر بھی یہ زندگی رکی ہوئی ہے

اٹھا سکتے نہیں جب چوم کر ہی چھوڑنا اچھا

محبت کا یہ پتھر اس دفعہ بھاری زیادہ ہے

تم ہی بتلاؤ کہ اس کی قدر کیا ہوگی تمہیں

جو محبت مفت میں مل جائے آسانی کے ساتھ

چہرے سے جھاڑ پچھلے برس کی کدورتیں

دیوار سے پرانا کلینڈر اتار دے

ایک ناموجودگی رہ جائے گی چاروں طرف

رفتہ رفتہ اس قدر سنسان کر دے گا مجھے

اس کو آنا تھا کہ وہ مجھ کو بلاتا تھا کہیں

رات بھر بارش تھی اس کا رات بھر پیغام تھا

مجھ میں ہیں گہری اداسی کے جراثیم اس قدر

میں تجھے بھی اس مرض میں مبتلا کر جاؤں گا

ایک دن صبح جو اٹھیں تو یہ دنیا ہی نہ ہو

ہے مدار اب کسی ایسی ہی خوش امکانی پر

تجھ کو میری نہ مجھے تیری خبر جائے گی

عید اب کے بھی دبے پاؤں گزر جائے گی

روشنی اب راہ سے بھٹکا بھی دیتی ہے میاں

اس کی آنکھوں کی چمک نے مجھ کو بے گھر کر دیا

سنا ہے وہ مرے بارے میں سوچتا ہے بہت

خبر تو ہے ہی مگر معتبر زیادہ نہیں

ہاتھ پیر آپ ہی میں مار رہا ہوں فی الحال

ڈوبتے کو ابھی تنکے کا سہارا کم ہے

یہ ہم جو پیٹ سے ہی سوچتے ہیں شام و سحر

کبھی تو جائیں گے اس دال بھات سے آگے

وہ بہت چالاک ہے لیکن اگر ہمت کریں

پہلا پہلا جھوٹ ہے اس کو یقیں آ جائے گا

وہ مجھ سے اپنا پتا پوچھنے کو آ نکلے

کہ جن سے میں نے خود اپنا سراغ پایا تھا

میں اندر سے کہیں تبدیل ہونا چاہتا تھا

پرانی کینچلی میں ہی نیا ہونا تھا مجھ کو

یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا

کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا

اک لہر ہے کہ مجھ میں اچھلنے کو ہے ظفرؔ

اک لفظ ہے کہ مجھ سے ادا ہونے والا ہے

خوشی ملی تو یہ عالم تھا بدحواسی کا

کہ دھیان ہی نہ رہا غم کی بے لباسی کا

یوں بھی ہوتا ہے کہ یک دم کوئی اچھا لگ جائے

بات کچھ بھی نہ ہو اور دل میں تماشا لگ جائے

سال ہا سال سے خاموش تھے گہرے پانی

اب نظر آئے ہیں آواز کے آثار مجھے

ترا چڑھا ہوا دریا سمجھ میں آتا ہے

ترے خموش کنارے نہیں سمجھتا ہوں

بڑھاپے سے اگلی یہ منزل ہے کوئی

جواں ہو گیا ہوں حسیں ہو گیا ہوں

ہم پہ دنیا ہوئی سوار ظفرؔ

اور ہم ہیں سوار دنیا پر

بجھا نہیں مرے اندر کا آفتاب ابھی

جلا کے خاک کرے گا یہی شرارہ مجھے

ایسا ہے جیسے آنکھ کی پتلی کے وسط میں

نقشہ بنا ہوا ہے کسی خواب زار کا

ہوا کے ساتھ جو اک بوسہ بھیجتا ہوں کبھی

تو شعلہ اس بدن پاک سے نکلتا ہے

میں زیادہ ہوں بہت اس کے لیے اب تک بھی

اور میرے لیے وہ سارے کا سارا کم ہے

کہاں تک ہو سکا کار محبت کیا بتائیں

تمہارے سامنے ہے کام جتنا ہو رہا ہے

جو یہاں خود ہی لگا رکھی ہے چاروں جانب

ایک دن ہم نے اسی آگ میں جل جانا ہے

ملا تو منزل جاں میں اتارنے نہ دیا

وہ کھو گیا تو کسی نے پکارنے نہ دیا

صاف و شفاف تھی پانی کی طرح نیت دل

دیکھنے والوں نے دیکھا اسے گدلا کر کے

جدھر سے کھول کے بیٹھے تھے در اندھیرے کا

اسی طرف سے ہمیں روشنی بہت آئی

اب کے اس بزم میں کچھ اپنا پتہ بھی دینا

پاؤں پر پاؤں جو رکھنا تو دبا بھی دینا

میری سورج سے ملاقات بھی ہو سکتی ہے

سوکھنے ڈال دیا جاؤں جو دھویا ہوا میں

کرتا ہوں نیند میں ہی سفر سارے شہر کا

فارغ تو بیٹھتا نہیں سونے کے باوجود

انکساری میں مرا حکم بھی جاری تھا ظفرؔ

عرض کرتے ہوئے ارشاد بھی خود میں نے کیا

بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا

پھر اس کے بعد نہ میں تھا نہ میرا سایا تھا

سنوگے لفظ میں بھی پھڑپھڑاہٹ

لہو میں بھی پرافشانی رہے گی

اب اس کی دید محبت نہیں ضرورت ہے

کہ اس سے مل کے بچھڑنے کی آرزو ہے بہت

رکھتا ہوں اپنا آپ بہت کھینچ تان کر

چھوٹا ہوں اور خود کو بڑا کرنے آیا ہوں

یہ زندگی کی آخری شب ہی نہ ہو کہیں

جو سو گئے ہیں ان کو جگا لینا چاہیئے

حسن اس کا اسی مقام پہ ہے

یہ مسافر سفر نہیں کرتا

وہ چہرہ ہاتھ میں لے کر کتاب کی صورت

ہر ایک لفظ ہر اک نقش کی ادا دیکھوں

در امید سے ہو کر نکلنے لگتا ہوں

تو یاس روزن زنداں سے آنکھ مارتی ہے

آگے بڑھوں تو زرد گھٹا میرے روبرو

پیچھے مڑوں تو گرد سفر میرے سامنے

چومنے کے لیے تھام رکھوں کوئی دم وہ ہاتھ

اور وہ پانوں رنگ حنا کے لیے چھوڑ دوں

وہ مقامات مقدس وہ ترے گنبد و قوس

اور مرا ایسے نشانات کا زائر ہونا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے