Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Habib Jalib's Photo'

حبیب جالب

1928 - 1993 | لاہور, پاکستان

مقبول انقلابی پاکستانی شاعر ، سیاسی جبر کی مخالفت کے لئے مشہور

مقبول انقلابی پاکستانی شاعر ، سیاسی جبر کی مخالفت کے لئے مشہور

حبیب جالب کے اشعار

22.2K
Favorite

باعتبار

ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں

دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں

دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے

دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے

تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا

اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا

دنیا تو چاہتی ہے یونہی فاصلے رہیں

دنیا کے مشوروں پہ نہ جا اس گلی میں چل

لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری

ہم تری دوستی سے ڈرتے ہیں

پا سکیں گے نہ عمر بھر جس کو

جستجو آج بھی اسی کی ہے

کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غم جاناں

کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے

ان کے آنے کے بعد بھی جالبؔ

دیر تک ان کا انتظار رہا

کچھ لوگ خیالوں سے چلے جائیں تو سوئیں

بیتے ہوئے دن رات نہ یاد آئیں تو سوئیں

تو آگ میں اے عورت زندہ بھی جلی برسوں

سانچے میں ہر اک غم کے چپ چاپ ڈھلی برسوں

اک عمر سنائیں تو حکایت نہ ہو پوری

دو روز میں ہم پر جو یہاں بیت گئی ہے

اس ستم گر کی حقیقت ہم پہ ظاہر ہو گئی

ختم خوش فہمی کی منزل کا سفر بھی ہو گیا

تمہیں تو ناز بہت دوستوں پہ تھا جالبؔ

الگ تھلگ سے ہو کیا بات ہو گئی پیارے

جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کے لیے بدنام ہوئے

آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں

چھوڑ اس بات کو اے دوست کہ تجھ سے پہلے

ہم نے کس کس کو خیالوں میں بسائے رکھا

جن کی یادوں سے روشن ہیں میری آنکھیں

دل کہتا ہے ان کو بھی میں یاد آتا ہوں

لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا

ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا

اک تری یاد سے اک تیرے تصور سے ہمیں

آ گئے یاد کئی نام حسیناؤں کے

یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم

لیکن یہ کیا کہ شہر ترا چھوڑ جائیں ہم

نہ تیری یاد نہ دنیا کا غم نہ اپنا خیال

عجیب صورت حالات ہو گئی پیارے

دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں

ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں

کبھی جمہوریت یہاں آئے

یہی جالبؔ ہماری حسرت ہے

اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا

رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا

آنے والی برکھا دیکھیں کیا دکھلائے آنکھوں کو

یہ برکھا برساتے دن تو بن پریتم بیکار گئے

امن تھا پیار تھا محبت تھا

رنگ تھا نور تھا نوا تھا فراق

شعر سے شاعری سے ڈرتے ہیں

کم نظر روشنی سے ڈرتے ہیں

اپنی تو داستاں ہے بس اتنی

غم اٹھائے ہیں شاعری کی ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے