Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Kaifi Azmi's Photo'

کیفی اعظمی

1918 - 2002 | ممبئی, انڈیا

مقبول عام، ممتاز، ترقی پسند شاعر اور فلم نغمہ نگار۔ ہیر رانجھا اور کاغذ کے پھول کے گیتوں کے لئے مشہور

مقبول عام، ممتاز، ترقی پسند شاعر اور فلم نغمہ نگار۔ ہیر رانجھا اور کاغذ کے پھول کے گیتوں کے لئے مشہور

کیفی اعظمی کے اشعار

54.8K
Favorite

باعتبار

بس اک جھجک ہے یہی حال دل سنانے میں

کہ تیرا ذکر بھی آئے گا اس فسانے میں

انساں کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں

دو گز زمیں بھی چاہیئے دو گز کفن کے بعد

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی

تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں

دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں

بستی میں اپنی ہندو مسلماں جو بس گئے

انساں کی شکل دیکھنے کو ہم ترس گئے

تم اتنا جو مسکرا رہے ہو

کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو

اب جس طرف سے چاہے گزر جائے کارواں

ویرانیاں تو سب مرے دل میں اتر گئیں

مدت کے بعد اس نے جو کی لطف کی نگاہ

جی خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے

کوئی تو سود چکائے کوئی تو ذمہ لے

اس انقلاب کا جو آج تک ادھار سا ہے

میرا بچپن بھی ساتھ لے آیا

گاؤں سے جب بھی آ گیا کوئی

پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم تو تھا

جسم جل جائیں گے جب سر پہ نہ سایہ ہوگا

گر ڈوبنا ہی اپنا مقدر ہے تو سنو

ڈوبیں گے ہم ضرور مگر ناخدا کے ساتھ

جس طرح ہنس رہا ہوں میں پی پی کے گرم اشک

یوں دوسرا ہنسے تو کلیجہ نکل پڑے

بیلچے لاؤ کھولو زمیں کی تہیں

میں کہاں دفن ہوں کچھ پتا تو چلے

کوئی کہتا تھا سمندر ہوں میں

اور مری جیب میں قطرہ بھی نہیں

روز بڑھتا ہوں جہاں سے آگے

پھر وہیں لوٹ کے آ جاتا ہوں

بہار آئے تو میرا سلام کہہ دینا

مجھے تو آج طلب کر لیا ہے صحرا نے

غربت کی ٹھنڈی چھاؤں میں یاد آئی اس کی دھوپ

قدر وطن ہوئی ہمیں ترک وطن کے بعد

اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے

ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے

جو اک خدا نہیں ملتا تو اتنا ماتم کیوں

یہاں تو کوئی مرا ہم زباں نہیں ملتا

کی ہے کوئی حسین خطا ہر خطا کے ساتھ

تھوڑا سا پیار بھی مجھے دے دو سزا کے ساتھ

روز بستے ہیں کئی شہر نئے

روز دھرتی میں سما جاتے ہیں

Recitation

بولیے