Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Sheen Kaaf Nizam's Photo'

شین کاف نظام

1947

ممتاز ما بعد جدید شاعر، ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ

ممتاز ما بعد جدید شاعر، ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ

شین کاف نظام کے اشعار

3K
Favorite

باعتبار

نکلے کبھی نہ گھر سے مگر اس کے باوجود

اپنی تمام عمر سفر میں گزر گئی

یادوں کی رت کے آتے ہی سب ہو گئے ہرے

ہم تو سمجھ رہے تھے سبھی زخم بھر گئے

ذرا سی بات تھی تیرا بچھڑنا

ذرا سی بات سے کیا کچھ ہوا ہے

اداسی اکیلے میں ڈر جائے گی

گھڑی دو گھڑی کو خوشی بھیج دے

بیچ کا بڑھتا ہوا ہر فاصلہ لے جائے گا

ایک طوفاں آئے گا سب کچھ بہا لے جائے گا

اپنی پہچان بھیڑ میں کھو کر

خود کو کمروں میں ڈھونڈتے ہیں لوگ

جن سے اندھیری راتوں میں جل جاتے تھے دیے

کتنے حسین لوگ تھے کیا جانے کیا ہوئے

کہاں جاتی ہیں بارش کی دعائیں

شجر پر ایک بھی پتہ نہیں ہے

ظلم تو بے زبان ہے لیکن

زخم کو تو زبان کب دے گا

وحشت تو سنگ و خشت کی ترتیب لے گئی

اب فکر یہ ہے دشت کی وسعت بھی لے نہ جائے

سن لیا ہوگا ہواؤں میں بکھر جاتا ہے

اس لئے بچے نے کاغذ پہ گھروندا لکھا

چبھن یہ پیٹھ میں کیسی ہے مڑ کے دیکھ تو لے

کہیں کوئی تجھے پیچھے سے دیکھتا ہوگا

اپنے افسانے کی شہرت اسے منظور نہ تھی

اس نے کردار بدل کر مرا قصہ لکھا

ساحلوں کی شفیق آنکھوں میں

دھوپ کپڑے اتار کر چمکے

آنکھیں کہیں دماغ کہیں دست و پا کہیں

رستوں کی بھیڑ بھاڑ میں دنیا بکھر گئی

خاموش تم تھے اور مرے ہونٹھ بھی تھے بند

پھر اتنی دیر کون تھا جو بولتا رہا

دھول اڑتی ہے دھوپ بیٹھی ہے

اوس نے آنسوؤں کا گھر چھوڑا

خاموش تم تھے اور مرے ہونٹ بھی تھے بند

پھر اتنی دیر کون تھا جو بولتا رہا

کسی کے ساتھ اب سایہ نہیں ہے

کوئی بھی آدمی پورا نہیں ہے

تو اکیلا ہے بند ہے کمرا

اب تو چہرا اتار کر رکھ دے

کوئی دعا کبھی تو ہماری قبول کر

ورنہ کہیں گے لوگ دعا سے اثر گیا

اونچی عمارتیں تو بڑی شاندار ہیں

لیکن یہاں تو رین بسیرے تھے کیا ہوئے

آرزو تھی ایک دن تجھ سے ملوں

مل گیا تو سوچتا ہوں کیا کروں

برسوں سے گھومتا ہے اسی طرح رات دن

لیکن زمین ملتی نہیں آسمان کو

دوستی عشق اور وفاداری

سخت جاں میں بھی نرم گوشے ہیں

گلی کے موڑ سے گھر تک اندھیرا کیوں ہے نظامؔ

چراغ یاد کا اس نے بجھا دیا ہوگا

ایک آسیب ہے ہر اک گھر میں

ایک ہی چہرہ در بدر چمکے

یاد اور یاد کو بھلانے میں

عمر کی فصل کٹ گئی دیکھو

دروازہ کوئی گھر سے نکلنے کے لئے دے

بے خوف کوئی راستہ چلنے کے لیے دے

پتیاں ہو گئیں ہری دیکھو

خود سے باہر بھی تو کبھی دیکھو

بدلتی رت کا نوحہ سن رہا ہے

ندی سوئی ہے جنگل جاگتا ہے

منظر کو کسی طرح بدلنے کی دعا دے

دے رات کی ٹھنڈک کو پگھلنے کی دعا دے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے