Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہجرت پر اشعار

ایک جگہ سے دوسری جگہ

یا ایک وطن سے کسی نئے وطن کی طرف منتقل ہوجانے کو ہجرت کہا جاتا ہے ۔ ہجرت خود اختیاری عمل نہیں ہے بلکہ آدمی بہت سے مذہبی ، سیاسی اور معاشی حالات سے مجبور ہوکر ہجرت کرتا ہے ۔ ہمارے اس انتخاب میں جو شعر ہیں ان میں ہجرت کی مجبوریوں اوراس کے دکھ درد کو موضوع بنایا گیا ہے ساتھ ہی ایک مہاجر اپنے پرانے وطن اور اس سے وابستہ یادوں کی طرف کس طرح پلٹتا ہے اور نئی زمین سے اس کی وابستگی کے کیا مسائل ہیں ان امور کو موضوع بنایا گیا ہے ۔

میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد

پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا

منیر نیازی

غربت کی ٹھنڈی چھاؤں میں یاد آئی اس کی دھوپ

قدر وطن ہوئی ہمیں ترک وطن کے بعد

کیفی اعظمی

یہ کیسی ہجرتیں ہیں موسموں میں

پرندے بھی نہیں ہیں گھونسلوں میں

خالد صدیقی

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

افتخار عارف

ابھی تو ایک وطن چھوڑ کر ہی نکلے ہیں

ہنوز دیکھنی باقی ہیں ہجرتیں کیا کیا

صبا اکبرآبادی

یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی

کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے

جمال احسانی

کچھ بے ٹھکانہ کرتی رہیں ہجرتیں مدام

کچھ میری وحشتوں نے مجھے در بدر کیا

صابر ظفر

اپنے رسم و رواج کھو بیٹھے

باقی اب خاندان میں کیا ہے

عادل زیدی

شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر

سگ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا

افتخار عارف

نہ رنج ہجرت تھا اور نہ شوق سفر تھا دل میں

سب اپنے اپنے گناہ کا بوجھ ڈھو رہے تھے

جمال احسانی

رسم و رواج چھوڑ کے سب آ گئے یہاں

رکھی ہوئی ہیں طاق میں اب غیرتیں تمام

عدیل زیدی

آزادیوں کے شوق و ہوس نے ہمیں عدیلؔ

اک اجنبی زمین کا قیدی بنا دیا

عدیل زیدی

گھر تو کیا گھر کا نشاں بھی نہیں باقی صفدرؔ

اب وطن میں کبھی جائیں گے تو مہماں ہوں گے

صفدر مرزا پوری

پانی میں عکس اور کسی آسماں کا ہے

یہ ناؤ کون سی ہے یہ دریا کہاں کا ہے

احمد مشتاق

ڈھنگ کے ایک ٹھکانے کے لیے

گھر کا گھر نقل مکانی میں رہا

ابرار احمد

درد ہجرت کے ستائے ہوئے لوگوں کو کہیں

سایۂ در بھی نظر آئے تو گھر لگتا ہے

بخش لائلپوری

پھر نئی ہجرت کوئی درپیش ہے

خواب میں گھر دیکھنا اچھا نہیں

عبد اللہ جاوید

جب اپنی سر زمین نے مجھ کو نہ دی پناہ

انجان وادیوں میں اترنا پڑا مجھے

عدیل زیدی

ہر نئی نسل کو اک تازہ مدینے کی تلاش

صاحبو اب کوئی ہجرت نہیں ہوگی ہم سے

افتخار عارف

یہ غم جدا ہے بہت جلدباز تھے ہم تم

یہ دکھ الگ ہے ابھی کائنات باقی ہے

جمال احسانی

مجھے بھی لمحۂ ہجرت نے کر دیا تقسیم

نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف

شہپر رسول

مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی

وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا

ناصر کاظمی

میں کیا جانوں گھروں کا حال کیا ہے

میں ساری زندگی باہر رہا ہوں

امیر قزلباش

یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی

جو جا چکا ہے اسے لوٹ کر نہیں آنا

آفتاب اقبال شمیم

تلاش رزق کا یہ مرحلہ عجب ہے کہ ہم

گھروں سے دور بھی گھر کے لیے بسے ہوئے ہیں

عارف امام

تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات

سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں

افتخار عارف

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے