Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Arzoo Lakhnavi's Photo'

آرزو لکھنوی

1873 - 1951 | کراچی, پاکستان

ممتاز قبل از جدید شاعر،جگر مرادآبادی کے معاصر

ممتاز قبل از جدید شاعر،جگر مرادآبادی کے معاصر

آرزو لکھنوی کی ٹاپ ٢٠ شاعری

کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی

جھوم کے آئی گھٹا ٹوٹ کے برسا پانی

وفا تم سے کریں گے دکھ سہیں گے ناز اٹھائیں گے

جسے آتا ہے دل دینا اسے ہر کام آتا ہے

بری سرشت نہ بدلی جگہ بدلنے سے

چمن میں آ کے بھی کانٹا گلاب ہو نہ سکا

جو دل رکھتے ہیں سینے میں وہ کافر ہو نہیں سکتے

محبت دین ہوتی ہے وفا ایمان ہوتی ہے

بھولے بن کر حال نہ پوچھ بہتے ہیں اشک تو بہنے دو

جس سے بڑھے بے چینی دل کی ایسی تسلی رہنے دو

حد سے ٹکراتی ہے جو شے وہ پلٹتی ہے ضرور

خود بھی روئیں گے غریبوں کو رلانے والے

خموشی میری معنی خیز تھی اے آرزو کتنی

کہ جس نے جیسا چاہا ویسا افسانہ بنا ڈالا

شوق چڑھتی دھوپ جاتا وقت گھٹتی چھاؤں ہے

با وفا جو آج ہیں کل بے وفا ہو جائیں گے

کھلنا کہیں چھپا بھی ہے چاہت کے پھول کا

لی گھر میں سانس اور گلی تک مہک گئی

دفعتاً ترک تعلق میں بھی رسوائی ہے

الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر

پھر چاہے تو نہ آنا او آن بان والے

جھوٹا ہی وعدہ کر لے سچی زبان والے

تیرے تو ڈھنگ ہیں یہی اپنا بنا کے چھوڑ دے

وہ بھی برا ہے باؤلا تجھ کو جو پا کے چھوڑ دے

جس قدر نفرت بڑھائی اتنی ہی قربت بڑھی

اب جو محفل میں نہیں ہے وہ تمہارے دل میں ہے

محبت نیک و بد کو سوچنے دے غیر ممکن ہے

بڑھی جب بے خودی پھر کون ڈرتا ہے گناہوں سے

ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر

اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی

جو کچھ تھا نہ کہنے کا سب کہہ گیا دیوانہ

سمجھو تو مکمل ہے اب عشق کا افسانہ

خزاں کا بھیس بنا کر بہار نے مارا

مجھے دورنگئ لیل و نہار نے مارا

سکون دل نہیں جس وقت سے اس بزم میں آئے

ذرا سی چیز گھبراہٹ میں کیا جانے کہاں رکھ دی

ہر سانس ہے اک نغمہ ہر نغمہ ہے مستانہ

کس درجہ دکھے دل کا رنگین ہے افسانہ

وائے غربت کہ ہوئے جس کے لئے خانہ خراب

سن کے آواز بھی گھر سے نہ وہ باہر نکلا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے