Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بہار پر اشعار

بہاریوں توایک موسم ہے

جواپنی خوشگوارفضا اورخوبصورتی کی بنا پرسب کیلئے پسندیدہ ہوتا ہے لیکن شاعری میں بہار محبوب کے حسن کا استعارہ بھی ہے اورزندگی میں میسرآسانی والی خوشی کی علامت بھی ۔ کلاسیکی شاعری کےعاشق پریہ موسم ایک دوسرے ہی اندازمیں وارد ہوتا ہے کہ خزاں کے بعد بہار بھی آکرگزرجاتی ہے لیکن اس کے ہجرکی میعاد پوری نہیں ہوتی ۔ احتجاجی اورانقلابی شاعری میں بہارکی استعاراتی نوعیت ایک اور رخ اختیارکر لیتی ہے ۔ ہمارا یہ انتخاب ان تمام جہتوں کو محیط ہے۔

بہاروں کی نظر میں پھول اور کانٹے برابر ہیں

محبت کیا کریں گے دوست دشمن دیکھنے والے

کلیم عاجز

اے دل بے قرار چپ ہو جا

جا چکی ہے بہار چپ ہو جا

ساغر صدیقی

میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے

ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا

احمد فراز

بہار آئے تو میرا سلام کہہ دینا

مجھے تو آج طلب کر لیا ہے صحرا نے

کیفی اعظمی

مری زندگی پہ نہ مسکرا مجھے زندگی کا الم نہیں

جسے تیرے غم سے ہو واسطہ وہ خزاں بہار سے کم نہیں

شکیل بدایونی

میری آنکھوں میں ہیں آنسو تیرے دامن میں بہار

گل بنا سکتا ہے تو شبنم بنا سکتا ہوں میں

نشور واحدی

افسردگی بھی حسن ہے تابندگی بھی حسن

ہم کو خزاں نے تم کو سنوارا بہار نے

اجتبیٰ رضوی

شگفتگئ دل کارواں کو کیا سمجھے

وہ اک نگاہ جو الجھی ہوئی بہار میں ہے

شکیل بدایونی

ٹک دیکھ لیں چمن کو چلو لالہ زار تک

کیا جانے پھر جئیں نہ جئیں ہم بہار تک

میر حسن

لطف بہار کچھ نہیں گو ہے وہی بہار

دل ہی اجڑ گیا کہ زمانہ اجڑ گیا

مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی

اس کو خزاں کے آنے کا کیا رنج کیا قلق

روتے کٹا ہو جس کو زمانہ بہار کا

جگت موہن لال رواں

نہ سیر باغ نہ ملنا نہ میٹھی باتیں ہیں

یہ دن بہار کے اے جان مفت جاتے ہیں

ناجی شاکر

مجھ کو احساس رنگ و بو نہ ہوا

یوں بھی اکثر بہار آئی ہے

حبیب احمد صدیقی

جب سے چھوٹا ہے گلستاں ہم سے

روز سنتے ہیں بہار آئی ہے

جلیل مانک پوری

یہ سوچتے ہی رہے اور بہار ختم ہوئی

کہاں چمن میں نشیمن بنے کہاں نہ بنے

اثر لکھنوی

اس طرف سے گزرے تھے قافلے بہاروں کے

آج تک سلگتے ہیں زخم رہ گزاروں کے

ساحر لدھیانوی

خوشی کے پھول کھلے تھے تمہارے ساتھ کبھی

پھر اس کے بعد نہ آیا بہار کا موسم

سلام سندیلوی

کہیو صبا سلام ہمارا بہار سے

ہم تو چمن کو چھوڑ کے سوئے قفس چلے

محمد رفیع سودا

تیرے قربان قمرؔ منہ سر گلزار نہ کھول

صدقے اس چاند سی صورت پہ نہ ہو جائے بہار

قمر جلالوی

بہار آئی کہ دن ہولی کے آئے

گلوں میں رنگ کھیلا جا رہا ہے

جلیل مانک پوری

تنکوں سے کھیلتے ہی رہے آشیاں میں ہم

آیا بھی اور گیا بھی زمانہ بہار کا

فانی بدایونی

خزاں کا بھیس بنا کر بہار نے مارا

مجھے دورنگئ لیل و نہار نے مارا

آرزو لکھنوی

مری بہار میں عالم خزاں کا رہتا ہے

ہوا جو وصل تو کھٹکا رہا جدائی کا

جلیل مانک پوری

اے خزاں بھاگ جا چمن سے شتاب

ورنہ فوج بہار آوے ہے

شیخ ظہور الدین حاتم

شاخوں سے برگ گل نہیں جھڑتے ہیں باغ میں

زیور اتر رہا ہے عروس بہار کا

امیر مینائی

آج ہے وہ بہار کا موسم

پھول توڑوں تو ہاتھ جام آئے

جلیل مانک پوری

گئی بہار مگر اپنی بے خودی ہے وہی

سمجھ رہا ہوں کہ اب تک بہار باقی ہے

مبارک عظیم آبادی

جو تھی بہار تو گاتے رہے بہار کا راگ

خزاں جو آئی تو ہم ہو گئے خزاں کی طرف

جلیل مانک پوری

میں اس گلشن کا بلبل ہوں بہار آنے نہیں پاتی

کہ صیاد آن کر میرا گلستاں مول لیتے ہیں

حیدر علی آتش

عجب بہار دکھائی لہو کے چھینٹوں نے

خزاں کا رنگ بھی رنگ بہار جیسا تھا

جنید حزیں لاری

گلوں کا دور ہے بلبل مزے بہار میں لوٹ

خزاں مچائے گی آتے ہی اس دیار میں لوٹ

حبیب موسوی

آمد آمد ہے خزاں کی جانے والی ہے بہار

روتے ہیں گل زار کے در باغباں کھولے ہوئے

تعشق لکھنوی

ادھر بھی خاک اڑی ہے ادھر بھی خاک اڑی

جہاں جہاں سے بہاروں کے کارواں نکلے

ساحر لدھیانوی

بہار آتے ہی ٹکرانے لگے کیوں ساغر و مینا

بتا اے پیر مے خانہ یہ مے خانوں پہ کیا گزری

جگن ناتھ آزاد

بہار آئی گلوں کو ہنسی نہیں آئی

کہیں سے بو تری گفتار کی نہیں آئی

کالی داس گپتا رضا

تڑپ کے رہ گئی بلبل قفس میں اے صیاد

یہ کیا کہا کہ ابھی تک بہار باقی ہے

بیتاب عظیم آبادی

کیا خبر مجھ کو خزاں کیا چیز ہے کیسی بہار

آنکھیں کھولیں آ کے میں نے خانۂ صیاد میں

منشی امیر اللہ تسلیم

غرور سے جو زمیں پر قدم نہیں رکھتی

یہ کس گلی سے نسیم بہار آتی ہے

جلیل مانک پوری

عرشؔ بہاروں میں بھی آیا ایک نظارہ پت جھڑ کا

سبز شجر کے سبز تنے پر اک سوکھی سی ڈالی تھی

وجے شرما

مرے خیال کی وسعت میں ہیں ہزار چمن

کہاں کہاں سے نکالے گی یہ بہار مجھے

شوق اثر رامپوری

چار دن کی بہار ہے ساری

یہ تکبر ہے یار جانی ہیچ

حقیر

نئی بہار کا مژدہ بجا سہی لیکن

ابھی تو اگلی بہاروں کا زخم تازہ ہے

شفقت کاظمی

اپنے دامن میں ایک تار نہیں

اور ساری بہار باقی ہے

حبیب احمد صدیقی

کیا اسی کو بہار کہتے ہیں

لالہ و گل سے خوں ٹپکتا ہے

سلام سندیلوی

خزاں رخصت ہوئی پھر آمد فصل بہاری ہے

گریباں خود بخود ہونے لگا ہے دھجیاں میرا

مرزا آسمان جاہ انجم

آئیں گے وقت خزاں چھوڑ دے آئی ہے بہار

لے لے صیاد قسم رکھ دے گلستاں سر پر

خواجہ محمد وزیر

شگفتہ باغ سخن ہے ہمیں سے اے صابرؔ

جہاں میں مثل نسیم بہار ہم بھی ہیں

فضل حسین صابر

پھول پر گلشن کے گویا دانۂ شبنم نہیں

عاشقوں کے حال پر آنکھیں پھراتی ہے بہار

آنند رام مخلص

کیا ہنگامۂ گل نے مرا جوش جنوں تازہ

ادھر آئی بہار ایدھر گریباں کا رفو ٹوٹا

میر محمدی بیدار

بہار چاک گریباں میں ٹھہر جاتی ہے

جنوں کی موج کوئی آستیں میں ہوتی ہے

عزیز حامد مدنی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے