خزاں پر اشعار
خزاں شاعری میں صرف ایک
لفظ ہی نہیں جسے ایک موسم کے بیان کیلئے استعمال کیا جاتا ہو بلکہ زندگی کی تمام تر منفی صورتوں کا ایک استعارہ ہے ۔ یہ عاشق کے موسم ہجر کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے اور سماجی ، سیاسی و تہذیبی سطح پر پھیلے ہوئے تاریک سایوں کے اظہاریے کے طور پر بھی ۔ اس لفظ کے حوالے سے یہ چند اشارے ہم نے دئے ہیں باقی آپ تلاش کیجئے ۔ ہمارا یہ انتخاب حاضر ہے ۔
مری زندگی پہ نہ مسکرا مجھے زندگی کا الم نہیں
جسے تیرے غم سے ہو واسطہ وہ خزاں بہار سے کم نہیں
-
موضوعات : بہاراور 2 مزید
افسردگی بھی حسن ہے تابندگی بھی حسن
ہم کو خزاں نے تم کو سنوارا بہار نے
-
موضوعات : بہاراور 1 مزید
پتلیاں تک بھی تو پھر جاتی ہیں دیکھو دم نزع
وقت پڑتا ہے تو سب آنکھ چرا جاتے ہیں
مری بہار میں عالم خزاں کا رہتا ہے
ہوا جو وصل تو کھٹکا رہا جدائی کا
اے خزاں بھاگ جا چمن سے شتاب
ورنہ فوج بہار آوے ہے
-
موضوع : بہار
جو تھی بہار تو گاتے رہے بہار کا راگ
خزاں جو آئی تو ہم ہو گئے خزاں کی طرف
خزاں جب تک چلی جاتی نہیں ہے
چمن والوں کو نیند آتی نہیں ہے
عجب بہار دکھائی لہو کے چھینٹوں نے
خزاں کا رنگ بھی رنگ بہار جیسا تھا
گلوں کا دور ہے بلبل مزے بہار میں لوٹ
خزاں مچائے گی آتے ہی اس دیار میں لوٹ
کیا خبر مجھ کو خزاں کیا چیز ہے کیسی بہار
آنکھیں کھولیں آ کے میں نے خانۂ صیاد میں
رعنائی بہار پہ تھے سب فریفتہ
افسوس کوئی محرم راز خزاں نہ تھا
خزاں کا زہر سارے شہر کی رگ رگ میں اترا ہے
گلی کوچوں میں اب تو زرد چہرے دیکھنے ہوں گے
خزاں رتوں کے پرندو! پلٹ کے آ جاؤ
درخت دینے لگے ہیں ہری بھری آواز