گناہ پر اشعار
گناہ ایک خالص مذہبی
تصور ہے لیکن شاعروں نے اسے بہت مختلف طور سے لیا ہے ۔ گناہ کا خوف میں مبتلا کر دینے والا خیال ایک خوشگوار صورت میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ یہ شاعری آپ کو گناہ ، ثواب ،خیر وشر کے حوالے سے بالکل ایک نئے بیانیے سے متعارف کرائے گی۔
کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں
عشق توفیق ہے گناہ نہیں
اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر
جیسے کوئی گناہ کئے جا رہا ہوں میں
-
موضوعات : زندگیاور 1 مزید
مرے گناہ زیادہ ہیں یا تری رحمت
کریم تو ہی بتا دے حساب کر کے مجھے
-
موضوع : خدا
فرشتے حشر میں پوچھیں گے پاک بازوں سے
گناہ کیوں نہ کیے کیا خدا غفور نہ تھا
تیری بخشش کے بھروسے پہ خطائیں کی ہیں
تیری رحمت کے سہارے نے گنہ گار کیا
گناہ گن کے میں کیوں اپنے دل کو چھوٹا کروں
سنا ہے تیرے کرم کا کوئی حساب نہیں
اپنے کسی عمل پہ ندامت نہیں مجھے
تھا نیک دل بہت جو گنہ گار مجھ میں تھا
گنہگاروں میں شامل ہیں گناہوں سے نہیں واقف
سزا کو جانتے ہیں ہم خدا جانے خطا کیا ہے
وہ کون ہیں جنہیں توبہ کی مل گئی فرصت
ہمیں گناہ بھی کرنے کو زندگی کم ہے
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے
پوچھے گا جو خدا تو یہ کہہ دیں گے حشر میں
ہاں ہاں گنہ کیا تری رحمت کے زور پر
گناہ گار تو رحمت کو منہ دکھا نہ سکا
جو بے گناہ تھا وہ بھی نظر ملا نہ سکا
شرکت گناہ میں بھی رہے کچھ ثواب کی
توبہ کے ساتھ توڑیئے بوتل شراب کی
دیکھا تو سب کے سر پہ گناہوں کا بوجھ تھا
خوش تھے تمام نیکیاں دریا میں ڈال کر
مرے خدا نے کیا تھا مجھے اسیر بہشت
مرے گنہ نے رہائی مجھے دلائی ہے
وہ جو رات مجھ کو بڑے ادب سے سلام کر کے چلا گیا
اسے کیا خبر مرے دل میں بھی کبھی آرزوئے گناہ تھی
-
موضوع : آرزو
سنا ہے خواب مکمل کبھی نہیں ہوتے
سنا ہے عشق خطا ہے سو کر کے دیکھتے ہیں
-
موضوعات : خواباور 2 مزید
گناہوں سے ہمیں رغبت نہ تھی مگر یا رب
تری نگاہ کرم کو بھی منہ دکھانا تھا
رحمتوں سے نباہ میں گزری
عمر ساری گناہ میں گزری
خود پرستی خدا نہ بن جائے
احتیاطاً گناہ کرتا ہوں
لذت کبھی تھی اب تو مصیبت سی ہو گئی
مجھ کو گناہ کرنے کی عادت سی ہو گئی
مجھے گناہ میں اپنا سراغ ملتا ہے
وگرنہ پارسا و دین دار میں بھی تھا
یاد آئے ہیں اف گنہ کیا کیا
ہاتھ اٹھائے ہیں جب دعا کے لئے
روح میں رینگتی رہتی ہے گنہ کی خواہش
اس امربیل کو اک دن کوئی دیوار ملے
عشق میں وہ بھی ایک وقت ہے جب
بے گناہی گناہ ہے پیارے
محسوس بھی ہو جائے تو ہوتا نہیں بیاں
نازک سا ہے جو فرق گناہ و ثواب میں
گناہ کر کے بھی ہم رند پاک صاف رہے
شراب پی تو ندامت نے آب آب کیا
تعزیر جرم عشق ہے بے صرفہ محتسب
بڑھتا ہے اور ذوق گنہ یاں سزا کے بعد
کہے گی حشر کے دن اس کی رحمت بے حد
کہ بے گناہ سے اچھا گناہگار رہا
خاموش ہو گئیں جو امنگیں شباب کی
پھر جرأت گناہ نہ کی ہم بھی چپ رہے
-
موضوعات : بڑھاپااور 1 مزید
کیا کیجئے کشش ہے کچھ ایسی گناہ میں
میں ورنہ یوں فریب میں آتا بہار کے
یہ کیا کہوں کہ مجھ کو کچھ گناہ بھی عزیز ہیں
یہ کیوں کہوں کہ زندگی ثواب کے لیے نہیں
زاہد امید رحمت حق اور ہجو مئے
پہلے شراب پی کے گناہگار بھی تو ہو
گزر رہا ہوں کسی جنت جمال سے میں
گناہ کرتا ہوا نیکیاں کماتا ہوا
نہ رنج ہجرت تھا اور نہ شوق سفر تھا دل میں
سب اپنے اپنے گناہ کا بوجھ ڈھو رہے تھے
-
موضوعات : سفراور 1 مزید