Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Amjad Islam Amjad's Photo'

امجد اسلام امجد

1944 - 2023 | لاہور, پاکستان

معروف شاعر اور پاکستانی ٹی وی سیریلوں کے لئے مشہور

معروف شاعر اور پاکستانی ٹی وی سیریلوں کے لئے مشہور

امجد اسلام امجد کے اشعار

19.2K
Favorite

باعتبار

مانا نظر کے سامنے ہے بے شمار دھند

ہے دیکھنا کہ دھند کے اس پار کون ہے

اتنے خدشے نہیں ہیں رستوں میں

جس قدر خواہش سفر میں ہیں

سوال یہ ہے کہ آپس میں ہم ملیں کیسے

ہمیشہ ساتھ تو چلتے ہیں دو کنارے بھی

شبنمی آنکھوں کے جگنو کانپتے ہونٹوں کے پھول

ایک لمحہ تھا جو امجدؔ آج تک گزرا نہیں

بات تو کچھ بھی نہیں تھیں لیکن اس کا ایک دم

ہاتھ کو ہونٹوں پہ رکھ کر روکنا اچھا لگا

کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا

وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا

یہ جو حاصل ہمیں ہر شے کی فراوانی ہے

یہ بھی تو اپنی جگہ ایک پریشانی ہے

سائے ڈھلنے چراغ جلنے لگے

لوگ اپنے گھروں کو چلنے لگے

درد کا رستہ ہے یا ہے ساعت روز حساب

سیکڑوں لوگوں کو روکا ایک بھی ٹھہرا نہیں

دام خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے

لفظ اظہار کی الجھن میں پڑا ہے کب سے

وہ سامنے ہے پھر بھی دکھائی نہ دے سکے

میرے اور اس کے بیچ یہ دیوار کون ہے

پھر آج کیسے کٹے گی پہاڑ جیسی رات

گزر گیا ہے یہی بات سوچتے ہوئے دن

زندگی درد بھی دوا بھی تھی

ہم سفر بھی گریز پا بھی تھی

آنکھوں میں کیسے تن گئی دیوار بے حسی

سینوں میں گھٹ کے رہ گئی آواز کس طرح

بچھڑ کے تجھ سے نہ جی پائے مختصر یہ ہے

اس ایک بات سے نکلی ہے داستاں کیا کیا

لرزش نگہ میں لہجے میں لکنت عجیب تھی

اس اولیں وصال کی وحشت عجیب تھی

تمہی نے کون سی اچھائی کی ہے

چلو مانا کہ میں اچھا نہیں تھا

تم سے بچھڑ کر پہروں سوچتا رہتا ہوں

اب میں کیوں اور کس کی خاطر زندہ ہوں

اس کے لہجے میں برف تھی لیکن

چھو کے دیکھا تو ہاتھ جلنے لگے

ایک نظر دیکھا تھا اس نے آگے یاد نہیں

کھل جاتی ہے دریا کی اوقات سمندر میں

جیسے ریل کی ہر کھڑکی کی اپنی اپنی دنیا ہے

کچھ منظر تو بن نہیں پاتے کچھ پیچھے رہ جاتے ہیں

یہ جو سائے سے بھٹکتے ہیں ہمارے ارد گرد

چھو کے ان کو دیکھیے تو واہمہ کوئی نہیں

بے ثمر پیڑوں کو چومیں گے صبا کے سبز لب

دیکھ لینا یہ خزاں بے دست و پا رہ جائے گی

ہر بات جانتے ہوئے دل مانتا نہ تھا

ہم جانے اعتبار کے کس مرحلے میں تھے

سنا ہے کانوں کے کچے ہو تم بہت سو ہم

تمہارے شہر میں سب سے بنا کے رکھتے ہیں

سائے لرزتے رہتے ہیں شہروں کی گلیوں میں

رہتے تھے انسان جہاں اب دہشت رہتی ہے

آنکھ بھی اپنی سراب آلود ہے

اور اس دریا میں پانی بھی نہیں

حادثہ بھی ہونے میں وقت کچھ تو لیتا ہے

بخت کے بگڑنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے

بڑے سکون سے ڈوبے تھے ڈوبنے والے

جو ساحلوں پہ کھڑے تھے بہت پکارے بھی

ہر سمندر کا ایک ساحل ہے

ہجر کی رات کا کنارا نہیں

لکھا تھا ایک تختی پر کوئی بھی پھول مت توڑے مگر آندھی تو ان پڑھ تھی

سو جب وہ باغ سے گزری کوئی اکھڑا کوئی ٹوٹا خزاں کے آخری دن تھے

ہجر کی انجمن سے ہر ساعت

اشک بے تاب کی طرح گزری

وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں

دل بے خبر مری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا

کس قدر یادیں ابھر آئی ہیں تیرے نام سے

ایک پتھر پھینکنے سے پڑ گئے کتنے بھنور

ترے فراق کی صدیاں ترے وصال کے پل

شمار عمر میں یہ ماہ و سال سے کچھ ہیں

نہ اس کا انت ہے کوئی نہ استعارہ ہے

یہ داستان ہے ہجر و وصال سے باہر

اس نے آہستہ سے جب پکارا مجھے

جھک کے تکنے لگا ہر ستارا مجھے

زخم یہ وصل کے مرہم سے بھی شاید نہ بھرے

ہجر میں ایسی ملی اب کے مسافت ہم کو

کیا ہو جاتا ہے ان ہنستے جیتے جاگتے لوگوں کو

بیٹھے بیٹھے کیوں یہ خود سے باتیں کرنے لگتے ہیں

جیسے بارش سے دھلے صحن گلستاں امجدؔ

آنکھ جب خشک ہوئی اور بھی چہرا چمکا

پسپا ہوئی سپاہ تو پرچم بھی ہم ہی تھے

حیرت کی بات یہ ہے کہ برہم بھی ہم ہی تھے

صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں

دھوپ آنکھوں تک آ جائے تو خواب بکھرنے لگتے ہیں

جہاں ہو پیار غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں

سو بات بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے

گزریں جو میرے گھر سے تو رک جائیں ستارے

اس طرح مری رات کو چمکاؤ کسی دن

ہمیں ہماری انائیں تباہ کر دیں گی

مکالمے کا اگر سلسلہ نہیں کرتے

کن‌ فکاں کے بھید سے مولیٰ مجھے آگاہ کر

کون ہوں میں گر یہاں پر دوسرا کوئی نہیں

دوریاں سمٹنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے

رنجشوں کے مٹنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے

گاہے گاہے ہی سہی امجدؔ مگر یہ واقعہ

یوں بھی لگتا ہے کہ دنیا کا خدا کوئی نہیں

قدم اٹھا ہے تو پاؤں تلے زمیں ہی نہیں

سفر کا رنج ہمیں خواہش سفر سے ہوا

بے وفا تو وہ خیر تھا امجدؔ

لیکن اس میں کہیں وفا بھی تھی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے