Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Khalilur Rahman Azmi's Photo'

خلیل الرحمن اعظمی

1927 - 1978 | علی گڑہ, انڈیا

جدید اردو تنقید کے بنیاد سازوں میں نمایاں

جدید اردو تنقید کے بنیاد سازوں میں نمایاں

خلیل الرحمن اعظمی کے اشعار

16.7K
Favorite

باعتبار

کوئی وقت بتلا کہ تجھ سے ملوں

مری دوڑتی بھاگتی زندگی

تیرے نہ ہو سکے تو کسی کے نہ ہو سکے

یہ کاروبار شوق مکرر نہ ہو سکا

مری نظر میں وہی موہنی سی مورت ہے

یہ رات ہجر کی ہے پھر بھی خوبصورت ہے

بنے بنائے سے رستوں کا سلسلہ نکلا

نیا سفر بھی بہت ہی گریز پا نکلا

جانے کیوں اک خیال سا آیا

میں نہ ہوں گا تو کیا کمی ہوگی

نہیں اب کوئی خواب ایسا تری صورت جو دکھلائے

بچھڑ کر تجھ سے کس منزل پر ہم تنہا چلے آئے

بس اک حسین کا کہیں ملتا نہیں سراغ

یوں ہر گلی یہاں کی ہمیں کربلا لگی

میں کہاں ہوں کچھ بتا دے زندگی اے زندگی!

پھر صدا اپنی سنا دے زندگی اے زندگی!

ہمارے بعد اس مرگ جواں کو کون سمجھے گا

ارادہ ہے کہ اپنا مرثیہ بھی آپ ہی لکھ لیں

ہم پہ جو گزری ہے بس اس کو رقم کرتے ہیں

آپ بیتی کہو یا مرثیہ خوانی کہہ لو

یہ اور بات کہ ترک وفا پہ مائل ہیں

تری وفا کی ہمیں آج بھی ضرورت ہے

میں اپنے گھر کو بلندی پہ چڑھ کے کیا دیکھوں

عروج فن مری دہلیز پر اتار مجھے

ہم نے تو خود کو بھی مٹا ڈالا

تم نے تو صرف بے وفائی کی

تیری گلی سے چھٹ کے نہ جائے اماں ملی

اب کے تو میرا گھر بھی مرا گھر نہ ہو سکا

یوں جی بہل گیا ہے تری یاد سے مگر

تیرا خیال تیرے برابر نہ ہو سکا

اب ان بیتے دنوں کو سوچ کر تو ایسا لگتا ہے

کہ خود اپنی محبت جیسے اک جھوٹی کہانی ہو

یوں تو مرنے کے لیے زہر سبھی پیتے ہیں

زندگی تیرے لیے زہر پیا ہے میں نے

نہ جانے کس کی ہمیں عمر بھر تلاش رہی

جسے قریب سے دیکھا وہ دوسرا نکلا

یہ سچ ہے آج بھی ہے مجھے زندگی عزیز

لیکن جو تم ملو تو یہ سودا گراں نہیں

بھلا ہوا کہ کوئی اور مل گیا تم سا

وگرنہ ہم بھی کسی دن تمہیں بھلا دیتے

ہر ایک لے میری اکھڑی اکھڑی سی دل کا ہر تار جیسے زخمی

یہ کون سی آگ جل رہی ہے یہ میری گیتوں کو کیا ہوا ہے

نگاہ مہرباں اٹھتی تو ہے سب کی طرف لیکن

نہیں واقف ابھی سب لوگ رمز آشنائی سے

ذرا جو تیز چلے تو کوئی بھی ساتھ نہ تھا

حصار فکر ہی بس اپنا پاسبان ہوا

ہنگامۂ حیات سے جاں بر نہ ہو سکا

یہ دل عجیب دل ہے کہ پتھر نہ ہو سکا

آج ڈوبا ہوا خوشبو میں ہے پیراہن جاں

اے صبا کس نے یہ پوچھا ہے ترا نام و نشاں

کوئی تو بات ہوگی کہ کرنے پڑے ہمیں

اپنے ہی خواب اپنے ہی قدموں سے پائمال

کیوں ہر گھڑی زباں پہ ہو جرم و سزا کا ذکر

کیوں ہر عمل کی فکر میں خوف خدا کی شرط

ازل سے تھا وہ ہمارے وجود کا حصہ

وہ ایک شخص کہ جو ہم پہ مہربان ہوا

نہ چاہو تم تو ہر اک گام کتنی دیواریں

جو چاہو تم تو ملن کی ہزار صورت ہے

تم مجھے چاہو نہ چاہو لیکن اتنا تو کرو

جھوٹ ہی کہہ دو کہ جینے کا بہانہ مل سکے

سنا رہا ہوں انہیں جھوٹ موٹ اک قصہ

کہ ایک شخص محبت میں کامیاب رہا

میرؔ کا طرز اپنایا سب نے لیکن یہ انداز کہاں

اعظمیؔ صاحب آپ کی غزلیں سن سن کر سب حیراں ہیں

میرے دشمن نہ مجھ کو بھول سکے

ورنہ رکھتا ہے کون کس کو یاد

نکالے گئے اس کے معنی ہزار

عجب چیز تھی اک مری خامشی

ذرا آ کے سامنے بیٹھ جا مری چشم تر کے قریب آ

مرے آئنہ میں بھی دیکھ لے کبھی اپنی زلف کی برہمی

لاکھ سادہ سہی تیری یہ جبیں کی تحریر

اس سے اکثر مرے افکار کو ملتی ہے زباں

ہائے وہ لوگ جن کے آنے کا

حشر تک انتظار ہوتا ہے

دیکھنے والا کوئی ملے تو دل کے داغ دکھاؤں

یہ نگری اندھوں کی نگری کس کو کیا سمجھاؤں

تمام یادیں مہک رہی ہیں ہر ایک غنچہ کھلا ہوا ہے

زمانہ بیتا مگر گماں ہے کہ آج ہی وہ جدا ہوا ہے

ہمیں تو راس نہ آئی کسی کی محفل بھی

کوئی خدا کوئی ہم سایۂ خدا نکلا

تری وفا میں ملی آرزوئے موت مجھے

جو موت مل گئی ہوتی تو کوئی بات بھی تھی

ہزار طرح کی مے پی ہزار طرح کے زہر

نہ پیاس ہی بجھی اپنی نہ حوصلہ نکلا

زندگی بھی مرے نالوں کی شناسا نکلی

دل جو ٹوٹا تو مرے گھر میں کوئی شمع جلی

دنیا بھر کی رام کہانی کس کس ڈھنگ سے کہہ ڈالی

اپنی کہنے جب بیٹھے تو ایک ایک لفظ پگھلتا تھا

ہم نے خود اپنے آپ زمانے کی سیر کی

ہم نے قبول کی نہ کسی رہنما کی شرط

عارض پہ تیرے میری محبت کی سرخیاں

میری جبیں پہ تیری وفا کا غرور ہے

تری صدا کا ہے صدیوں سے انتظار مجھے

مرے لہو کے سمندر ذرا پکار مجھے

زہر پی کر بھی یہاں کس کو ملی غم سے نجات

ختم ہوتا ہے کہیں سلسلۂ رقص حیات

ہم سا ملے کوئی تو کہیں اس سے حال دل

ہم بن گئے زمانے میں کیوں اپنی ہی مثال

ہائے اس دست کرم ہی سے ملے جور و جفا

مجھ کو آغاز محبت ہی میں مر جانا تھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے