Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Akhtar Hoshiyarpuri's Photo'

اختر ہوشیارپوری

1918 - 2007 | راول پنڈی, پاکستان

معروف شاعر،اپنے نعتیہ کلام کے لیے بھی جانے جاتے ہیں، حکومت پاکستان کے اعزاز’ تمغۂ امتیاز ‘سے سرفراز

معروف شاعر،اپنے نعتیہ کلام کے لیے بھی جانے جاتے ہیں، حکومت پاکستان کے اعزاز’ تمغۂ امتیاز ‘سے سرفراز

اختر ہوشیارپوری کے اشعار

7.8K
Favorite

باعتبار

نہ جانے لوگ ٹھہرتے ہیں وقت شام کہاں

ہمیں تو گھر میں بھی رکنے کا حوصلا نہ ہوا

میں اب بھی رات گئے اس کی گونج سنتا ہوں

وہ حرف کم تھا بہت کم مگر صدا تھا بہت

یہ کیا کہ مجھ کو چھپایا ہے میری نظروں سے

کبھی تو مجھ کو مرے سامنے بھی لائے وہ

زمانہ اپنی عریانی پہ خوں روئے گا کب تک

ہمیں دیکھو کہ اپنے آپ کو اوڑھے ہوئے ہیں

کسے خبر کہ گہر کیسے ہاتھ آتے ہیں

سمندروں سے بھی گہری ہے خامشی میری

دیکھا ہے یہ پرچھائیں کی دنیا میں کہ اکثر

اپنے قد و قامت سے بھی کچھ لوگ بڑے ہیں

تمام حرف مرے لب پہ آ کے جم سے گئے

نہ جانے میں کہا کیا اور اس نے سمجھا کیا

بارہا ٹھٹھکا ہوں خود بھی اپنا سایہ دیکھ کر

لوگ بھی کترائے کیا کیا مجھ کو تنہا دیکھ کر

ٹکرا کے سر کو اپنا لہو آپ چاٹتے

اچھا ہوا کہ دشت میں دیوار و در نہ تھے

اے جلتی رتو گواہ رہنا

ہم ننگے پاؤں چل رہے ہیں

مری گلی کے مکیں یہ مرے رفیق سفر

یہ لوگ وہ ہیں جو چہرے بدلتے رہتے ہیں

الماری میں تصویریں رکھتا ہوں

اب بچپن اور بڑھاپا ایک ہوئے

کسی سے مجھ کو گلہ کیا کہ کچھ کہوں اخترؔ

کہ میری ذات ہی خود راستے کا پتھر ہے

یہی دن میں ڈھلے گی رات اخترؔ

یہی دن کا اجالا رات ہوگا

میلے کپڑوں کا اپنا رنگ بھی تھا

پھر بھی قسمت میں جگ ہنسائی تھی

میں اپنی ذات کی تشریح کرتا پھرتا تھا

نہ جانے پھر کہاں آواز کھو گئی میری

اخترؔ گزرتے لمحوں کی آہٹ پہ یوں نہ چونک

اس ماتمی جلوس میں اک زندگی بھی ہے

نکل کر آ گئے ہیں جنگلوں میں

مکاں کو لا مکاں کرنا پڑا ہے

یہ کہیں عمر گزشتہ تو نہیں تم تو نہیں

کوئی پھرتا ہے سر شہر وفا آوارہ

یہ سرگزشت زمانہ یہ داستان حیات

ادھوری بات میں بھی رہ گئی کمی میری

وہ پیڑ تو نہیں تھا کہ اپنی جگہ رہے

ہم شاخ تو نہیں تھے مگر پھر بھی کٹ گئے

گزرتے وقت نے کیا کیا نہ چارہ سازی کی

وگرنہ زخم جو اس نے دیا تھا کاری تھا

لوگ نظروں کو بھی پڑھ لیتے ہیں

اپنی آنکھوں کو جھکائے رکھنا

کب دھوپ چلی شام ڈھلی کس کو خبر ہے

اک عمر سے میں اپنے ہی سائے میں کھڑا ہوں

زلزلہ آیا تو دیواروں میں دب جاؤں گا

لوگ بھی کہتے ہیں یہ گھر بھی ڈراتا ہے مجھے

سر پہ طوفان بھی ہے سامنے گرداب بھی ہے

میری ہمت کہ وہی کچا گھڑا ہے دیکھو

تھی تتلیوں کے تعاقب میں زندگی میری

وہ شہر کیا ہوا جس کی تھی ہر گلی میری

وہ بھی سچ کہتے ہیں اخترؔ لوگ بیگانے ہوئے

ہم بھی سچے ہیں کہ دنیا کا چلن ایسا نہ تھا

کیا لوگ ہیں کہ دل کی گرہ کھولتے نہیں

آنکھوں سے دیکھتے ہیں مگر بولتے نہیں

وہ کم سخن تھا مگر ایسا کم سخن بھی نہ تھا

کہ سچ ہی بولتا تھا جب بھی بولتا تھا بہت

جس قدر نیچے اترتا ہوں میں

جھیل بھی گہری ہوئی جاتی ہے

شاید اپنا ہی تعاقب ہے مجھے صدیوں سے

شاید اپنا ہی تصور لئے جاتا ہے مجھے

کچے مکان جتنے تھے بارش میں بہہ گئے

ورنہ جو میرا دکھ تھا وہ دکھ عمر بھر کا تھا

وہی مٹی ہے سب کے چہروں پر

آئنہ سب سے با خبر ہے یہاں

ہوا میں خوشبوئیں میری پہچان بن گئی تھیں

میں اپنی مٹی سے پھول بن کر ابھر رہا تھا

خواہشیں خون میں اتری ہیں صحیفوں کی طرح

ان کتابوں میں ترے ہاتھ کی تحریر بھی ہے

چمن کے رنگ و بو نے اس قدر دھوکا دیا مجھ کو

کہ میں نے شوق گل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھ دی

زندگی مرگ طلب ترک طلب اخترؔ نہ تھی

پھر بھی اپنے تانے بانے میں مجھے الجھا گئی

دھوپ کی گرمی سے اینٹیں پک گئیں پھل پک گئے

اک ہمارا جسم تھا اختر جو کچا رہ گیا

کچھ مجھے بھی یہاں قرار نہیں

کچھ ترا غم بھی در بہ در ہے یہاں

پرانے خوابوں سے ریزہ ریزہ بدن ہوا ہے

یہ چاہتا ہوں کہ اب نیا کوئی خواب دیکھوں

کچھ اتنے ہو گئے مانوس سناٹوں سے ہم اخترؔ

گزرتی ہے گراں اپنی صدا بھی اب تو کانوں پر

ہمیں خبر ہے کوئی ہم سفر نہ تھا پھر بھی

یقیں کی منزلیں طے کیں گماں کے ہوتے ہوئے

میں نے جو خواب ابھی دیکھا نہیں ہے اخترؔ

میرا ہر خواب اسی خواب کی تعبیر بھی ہے

وہ شاید کوئی سچی بات کہہ دے

اسے پھر بد گماں کرنا پڑا ہے

روح کی گہرائی میں پاتا ہوں پیشانی کے زخم

صرف چاہا ہی نہیں میں نے اسے پوجا بھی ہے

سیلاب امنڈ کے شہر کی گلیوں میں آ گئے

لیکن غریب شہر کا دامن نہ تر ہوا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے