Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Zaheer Kashmiri's Photo'

ظہیر کاشمیری

1919 - 1994 | لاہور, پاکستان

ظہیر کاشمیری کے اشعار

3.5K
Favorite

باعتبار

آہ یہ مہکی ہوئی شامیں یہ لوگوں کے ہجوم

دل کو کچھ بیتی ہوئی تنہائیاں یاد آ گئیں

سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط

خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا

کوئی دستک کوئی آہٹ نہ شناسا آواز

خاک اڑتی ہے در دل پہ بیاباں کی طرح

ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب

ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے

فرض برسوں کی عبادت کا ادا ہو جیسے

بت کو یوں پوج رہے ہیں کہ خدا ہو جیسے

عشق جب تک نہ آس پاس رہا

حسن تنہا رہا اداس رہا

کتنا دل کش ہے تری یاد کا پالا ہوا اشک

سینۂ خاک پہ مہتاب گرا ہو جیسے

جب خامشی ہی بزم کا دستور ہو گئی

میں آدمی سے نقش بہ دیوار بن گیا

اپنے گلے میں اپنی ہی بانہوں کو ڈالیے

جینے کا اب تو ایک یہی ڈھنگ رہ گیا

میں نے اس کو اپنا مسیحا مان لیا

سارا زمانہ جس کو قاتل کہتا ہے

بڑھ گئے ہیں اس قدر قلب و نظر کے فاصلے

ساتھ ہو کر ہم سفر سے ہم سفر ملتے نہیں

تو مری ذات مری روح مرا حسن کلام

دیکھ اب تو نہ بدل گردش دوراں کی طرح

سونے پڑے ہیں دل کے در و بام اے ظہیرؔ

لاہور جب سے چھوڑ کے جان غزل گیا

مجھ سے بچھڑ کر پہروں رویا کرتا تھا

وہ جو میرے حال پہ ہنستا رہتا ہے

تنہائیوں میں آتی رہی جب بھی اس کی یاد

سایہ سا اک قریب مرے ڈولتا رہا

ہمارے عشق سے درد جہاں عبارت ہے

ہمارا عشق ہوس سے بلند و بالا ہے

تمام عمر تری ہمرہی کا شوق رہا

مگر یہ رنج کہ میں موجۂ صبا نہ ہوا

عشق اک حکایت ہے سرفروش دنیا کی

ہجر اک مسافت ہے بے نگار صحرا کی

دل بھی صنم پرست نظر بھی صنم پرست

اس عاشقی میں خانہ ہمہ آفتاب تھا

بڑے دلکش ہیں دنیا کے خم و پیچ

نظر میں زلف سی لہرا رہی ہے

انہیں کی حسرت رفتہ کی یادگار ہوں میں

جو لوگ رہ گئے تنہا بھری بہاروں میں

ہم خود ہی بے لباس رہے اس خیال سے

وحشت بڑھی تو سوئے گریباں بھی آئے گی

اس دور عافیت میں یہ کیا ہو گیا ہمیں

پتا سمجھ کے لے اڑی وحشی ہوا ہمیں

وہ بزم سے نکال کے کہتے ہیں اے ظہیرؔ

جاؤ مگر قریب رگ جاں رہا کرو

ہم نے اپنے عشق کی خاطر زنجیریں بھی دیکھیں ہیں

ہم نے ان کے حسن کی خاطر رقص بھی زیر دار کیا

کل کائنات فکر سے آزاد ہو گئی

انساں مثال دست تہ سنگ رہ گیا

ہمارے پاس کوئی گردش دوراں نہیں آتی

ہم اپنی عمر فانی ساغر و مینا میں رکھتے ہیں

ہوتی نہ ہم کو سایۂ دیوار کی تلاش

لیکن محیط زیست بہت تنگ رہ گیا

برق زمانہ دور تھی لیکن مشعل خانہ دور نہ تھی

ہم تو ظہیرؔ اپنے ہی گھر کی آگ میں جل کر خاک ہوئے

ہجر کے دور میں ہر دور کو شامل کر لیں

اس میں شامل یہی اک عمر گریزاں کیوں ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے