Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Akhtar Saeed Khan's Photo'

اختر سعید خان

1923 - 2006 | بھوپال, انڈیا

ترقی پسند ادبی نظرے کے شاعر، انجمن ترقی پسند مصنفین کے سکریٹری بھی رہے

ترقی پسند ادبی نظرے کے شاعر، انجمن ترقی پسند مصنفین کے سکریٹری بھی رہے

اختر سعید خان کے اشعار

17.5K
Favorite

باعتبار

کس جرم آرزو کی سزا ہے یہ زندگی

ایسا تو اے خدا میں گنہ گار بھی نہیں

کس کو فرصت تھی کہ اخترؔ دیکھتا میری طرف

میں جہاں جس بزم میں جب تک رہا تنہا رہا

یہ بستی اس قدر سنسان کب تھی

دل شوریدہ تھک کر سو گیا کیا

آ کہ میں دیکھ لوں کھویا ہوا چہرہ اپنا

مجھ سے چھپ کر مری تصویر بنانے والے

ناامیدی حرف تہمت ہی سہی کیا کیجئے

تم قریب آتے نہیں ہو اور خدا ملتا نہیں

کھلی آنکھوں نظر آتا نہیں کچھ

ہر اک سے پوچھتا ہوں وہ گیا کیا

کسی کے تم ہو کسی کا خدا ہے دنیا میں

مرے نصیب میں تم بھی نہیں خدا بھی نہیں

بہت قریب رہی ہے یہ زندگی ہم سے

بہت عزیز سہی اعتبار کچھ بھی نہیں

مرا فسانہ ہر اک دل کا ماجرا تو نہ تھا

سنا بھی ہوگا کسی نے تو کیا سنا ہوگا

ہم نے مانا اک نہ اک دن لوٹ کے تو آ جائے گا

لیکن تجھ بن عمر جو گزری کون اسے لوٹائے گا

نگاہیں منتظر ہیں کس کی دل کو جستجو کیا ہے

مجھے خود بھی نہیں معلوم میری آرزو کیا ہے

تو کہانی ہی کے پردے میں بھلی لگتی ہے

زندگی تیری حقیقت نہیں دیکھی جاتی

اسی موڑ پر ہم ہوئے تھے جدا

ملے ہیں تو دم بھر ٹھہر جائیے

چراغ لے کے اسے ڈھونڈنے چلا ہوں میں

جو آفتاب کی مانند اک اجالا ہے

کون جینے کے لیے مرتا رہے

لو، سنبھالو اپنی دنیا ہم چلے

میں سفر میں ہوں مگر سمت سفر کوئی نہیں

کیا میں خود اپنا ہی نقش کف پا ہوں کیا ہوں

سفر ہی شرط سفر ہے تو ختم کیا ہوگا

تمہارے گھر سے ادھر بھی یہ راستہ ہوگا

بند کر دے کوئی ماضی کا دریچہ مجھ پر

اب اس آئینے میں صورت نہیں دیکھی جاتی

بہیں نہ آنکھ سے آنسو تو نغمگی بے سود

کھلیں نہ پھول تو رنگینئ فغاں کیا ہے

زندگی کیا ہوئے وہ اپنے زمانے والے

یاد آتے ہیں بہت دل کو دکھانے والے

یہ دشت وہ ہے جہاں راستہ نہیں ملتا

ابھی سے لوٹ چلو گھر ابھی اجالا ہے

بند رکھوگے دریچے دل کے یارو کب تلک

کوئی دستک دے رہا ہے اٹھ کے دیکھو تو سہی

زمانہ عشق کے ماروں کو مات کیا دے گا

دلوں کے کھیل میں یہ جیت ہار کچھ بھی نہیں

یہ بے سبب نہیں آئے ہیں آنکھ میں آنسو

خوشی کا لمحہ کوئی یاد آ گیا ہوگا

ہر موج گلے لگ کے یہ کہتی ہے ٹھہر جاؤ

دریا کا اشارہ ہے کہ ہم پار اتر جائیں

مجھے اب دیکھتی ہے زندگی یوں بے نیازانہ

کہ جیسے پوچھتی ہو کون ہو تم جستجو کیا ہے

دشمن جاں ہی سہی ساتھ تو اک عمر کا ہے

دل سے اب درد کی رخصت نہیں دیکھی جاتی

زندگی چھین لے بخشی ہوئی دولت اپنی

تو نے خوابوں کے سوا مجھ کو دیا بھی کیا ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے