Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Irfan Sattar's Photo'

عرفان ستار

1968 | کناڈا

معروف جدید شاعر

معروف جدید شاعر

عرفان ستار کے اشعار

8.4K
Favorite

باعتبار

برائے اہل جہاں لاکھ کج کلاہ تھے ہم

گئے حریم سخن میں تو عاجزی سے گئے

یونہی رکا تھا دم لینے کو، تم نے کیا سمجھا؟

ہار نہیں مانی تھی بس سستانے بیٹھا تھا

کیا بتاؤں کہ جو ہنگامہ بپا ہے مجھ میں

ان دنوں کوئی بہت سخت خفا ہے مجھ میں

اس کی خواہش پہ تم کو بھروسا بھی ہے اس کے ہونے نہ ہونے کا جھگڑا بھی ہے

لطف آیا تمہیں گمرہی نے کہا گمرہی کے لئے ایک تازہ غزل

آباد مجھ میں تیرے سوا اور کون ہے؟

تجھ سے بچھڑ رہا ہوں تجھے کھو نہیں رہا

راز حق فاش ہوا مجھ پہ بھی ہوتے ہوتے

خود تک آ ہی گیا عرفانؔ بھٹکتا ہوا میں

تم آ گئے ہو تو اب آئینہ بھی دیکھیں گے

ابھی ابھی تو نگاہوں میں روشنی ہوئی ہے

یہ کیسے ملبے کے نیچے دبا دیا گیا ہوں

مجھے بدن سے نکالو میں تنگ آ گیا ہوں

روک لیتا ہے ابد وقت کے اس پار کی راہ

دوسری سمت سے جاؤں تو ازل پڑتا ہے

نہیں نہیں میں بہت خوش رہا ہوں تیرے بغیر

یقین کر کہ یہ حالت ابھی ابھی ہوئی ہے

میں جاگ جاگ کے کس کس کا انتظار کروں

جو لوگ گھر نہیں پہنچے وہ مر گئے ہوں گے

کوئی ملا تو کسی اور کی کمی ہوئی ہے

سو دل نے بے طلبی اختیار کی ہوئی ہے

میں تجھ سے ساتھ بھی تو عمر بھر کا چاہتا تھا

سو اب تجھ سے گلا بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے

تیرے ماضی کے ساتھ دفن کہیں

میرا اک واقعہ نہیں میں ہوں

منظروں سے بہلنا ضروری نہیں گھر سے باہر نکلنا ضروری نہیں

دل کو روشن کرو روشنی نے کہا روشنی کے لئے ایک تازہ غزل

وہ گفتگو جو مری صرف اپنے آپ سے تھی

تری نگاہ کو پہنچی تو شاعری ہوئی ہے

اسے بتایا نہیں ہجر میں جو حال ہوا

جو بات سب سے ضروری تھی وہ چھپا گیا ہوں

اس میں نہیں ہے دخل کوئی خوف و حرص کا

اس کی جزا، نہ اس کی سزا ہے، یہ عشق ہے

راکھ کے ڈھیر پہ کیا شعلہ بیانی کرتے

ایک قصے کی بھلا کتنی کہانی کرتے

تعلقات کے برزخ میں عین ممکن ہے

ذرا سا دکھ وہ مجھے دے تو میں ترا ہو جاؤں

ہاں خدا ہے، اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں

اس سے تم یہ مت سمجھ لینا خدا موجود ہے

یہاں جو ہے کہاں اس کا نشاں باقی رہے گا

مگر جو کچھ نہیں وہ سب یہاں باقی رہے گا

تاب یک لحظہ کہاں حسن جنوں خیز کے پیش

سانس لینے سے توجہ میں خلل پڑتا ہے

ذرا اہل جنوں آؤ، ہمیں رستہ سجھاؤ

یہاں ہم عقل والوں کا خدا گم ہو گیا ہے

مجھے دکھ ہے کہ زخم و رنج کے اس جمگھٹے میں

تمہارا اور میرا واقعہ گم ہو گیا ہے

یہ عمر کی ہے بسر کچھ عجب توازن سے

ترا ہوا نہ ہی خود سے نباہ میں نے کیا

زخم فرقت کو پلکوں سے سیتے ہوئے سانس لینے کی عادت میں جیتے ہوئے

اب بھی زندہ ہو تم زندگی نے کہا زندگی کے لئے ایک تازہ غزل

اک چبھن ہے کہ جو بے چین کیے رہتی ہے

ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں

وہ جس نے مجھ کو ترے ہجر میں بحال رکھا

تو آ گیا ہے تو کیا اس سے بے وفا ہو جاؤں

تیری صورت میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں میں بھی

غالباً تو بھی مجھے ڈھونڈ رہا ہے مجھ میں

نہ پوچھئے کہ وہ کس کرب سے گزرتے ہیں

جو آگہی کے سبب عیش بندگی سے گئے

کسی آہٹ میں آہٹ کے سوا کچھ بھی نہیں اب

کسی صورت میں صورت کے سوا کیا رہ گیا ہے

ایسی دنیا میں کب تک گزارا کریں تم ہی کہہ دو کہ کیسے گوارا کریں

رات مجھ سے مری بے بسی نے کہا بے بسی کے لئے ایک تازہ غزل

کس عجب ساعت نایاب میں آیا ہوا ہوں

تجھ سے ملنے میں ترے خواب میں آیا ہوا ہوں

ہر ایک رنج اسی باب میں کیا ہے رقم

ذرا سا غم تھا جسے بے پناہ میں نے کیا

جو عقل سے بدن کو ملی تھی، وہ تھی ہوس

جو روح کو جنوں سے ملا ہے، یہ عشق ہے

تمہیں فرصت ہو دنیا سے تو ہم سے آ کے ملنا

ہمارے پاس فرصت کے سوا کیا رہ گیا ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے