Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Kashif Husain Ghair's Photo'

کاشف حسین غائر

1979 | کراچی, پاکستان

نئی نسل کے نمائندہ شاعر

نئی نسل کے نمائندہ شاعر

کاشف حسین غائر کے اشعار

2.9K
Favorite

باعتبار

کچھ ایسی بھی دل کی باتیں ہوتی ہیں

جن باتوں کو خلوت کم پڑ جاتی ہے

کچھ دیر بیٹھ جائیے دیوار کے قریب

کیا کہہ رہا ہے سایۂ دیوار جانیے

کیا کہیں اور دل کے بارے میں

ہم ملازم ہیں اس ادارے میں

نیند اڑنے لگی ہے آنکھوں سے

دھول جمنے لگی ہے بستر پر

پیڑ ہو یا کہ آدمی غائرؔ

سر بلند اپنی عاجزی سے ہوا

نہ ہم وحشت میں اپنے گھر سے نکلے

نہ صحرا اپنی ویرانی سے نکلا

میرے اندر کا شور ہے مجھ میں

ورنہ باہر تو خامشی ہے یہاں

مجھ سے رستوں کا بچھڑنا نہیں دیکھا جاتا

مجھ سے ملنے وہ کسی موڑ پہ آیا نہ کرے

موت کا کیا کام جب اس شہر میں

زندگی جیسی بلا موجود ہے

زندگی میں کسک ضروری تھی

یہ خلا پر تری کمی سے ہوا

زمیں آباد ہوتی جا رہی ہے

کہاں جائے گی تنہائی ہماری

زندگی دھوپ میں آنے سے کھلی

سایہ دیوار اٹھانے سے کھلا

شور جتنا ہے کائنات میں شور

میرے اندر کی خامشی سے ہوا

بنے ہیں کام سب الجھن سے میرے

یہی اطوار ہیں بچپن سے میرے

کل رات جگاتی رہی اک خواب کی دوری

اور نیند بچھاتی رہی بستر مرے آگے

کیا چاہتی ہے ہم سے ہماری یہ زندگی

کیا قرض ہے جو ہم سے ادا ہو نہیں رہا

تیرا خیال تیری تمنا تک آ گیا

میں دل کو ڈھونڈھتا ہوا دنیا تک آ گیا

مجھ سے منسوب ہے غبار مرا

قافلے میں نہ کر شمار مرا

ہمارے دل کی طرح شہر کے یہ رستے بھی

ہزار بھید چھپائے ہوئے سے لگتے ہیں

ہماری زندگی پر موت بھی حیران ہے غائرؔ

نہ جانے کس نے یہ تاریخ پیدائش نکالی ہے

ان ستاروں میں کہیں تم بھی ہو

ان نظاروں میں کہیں میں بھی ہوں

یہ ہوا یوں ہی خاک چھانتی ہے

یا کوئی چیز کھو گئی ہے یہاں

زمیں ہموار ہو کر رہ گئی ہے

اڑی ہے دھول وہ دامن سے میرے

نظر ملی تو نظاروں میں بانٹ دی میں نے

یہ روشنی بھی ستاروں میں بانٹ دی میں نے

اک دن دکھ کی شدت کم پڑ جاتی ہے

کیسی بھی ہو وحشت کم پڑ جاتی ہے

صحرا میں آ نکلے تو معلوم ہوا

تنہائی کو وسعت کم پڑ جاتی ہے

دھوپ سائے کی طرح پھیل گئی

ان درختوں کی دعا لینے سے

ہماری زندگی پر موت بھی حیران ہے غائرؔ

نہ جانے کس نے یہ تاریخ پیدائش نکالی ہے

حال پوچھا نہ کرے ہاتھ ملایا نہ کرے

میں اسی دھوپ میں خوش ہوں کوئی سایہ نہ کرے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے