Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Rahat Indori's Photo'

راحت اندوری

1950 - 2020 | اندور, انڈیا

مقبول شاعر اور فلم نغمہ نگار

مقبول شاعر اور فلم نغمہ نگار

راحت اندوری کے اشعار

99K
Favorite

باعتبار

بیمار کو مرض کی دوا دینی چاہئے

میں پینا چاہتا ہوں پلا دینی چاہئے

چاند سورج مری چوکھٹ پہ کئی صدیوں سے

روز لکھے ہوئے چہرے پہ سوال آتے ہیں

سوئے رہتے ہیں اوڑھ کر خود کو

اب ضرورت نہیں رضائی کی

نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا

ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا

خیال تھا کہ یہ پتھراؤ روک دیں چل کر

جو ہوش آیا تو دیکھا لہو لہو ہم تھے

شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم

آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے

یہ ہوائیں اڑ نہ جائیں لے کے کاغذ کا بدن

دوستو مجھ پر کوئی پتھر ذرا بھاری رکھو

روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں

روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے

ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے

کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے

رات کی دھڑکن جب تک جاری رہتی ہے

سوتے نہیں ہم ذمہ داری رہتی ہے

آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو

زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو

ہم اپنی جان کے دشمن کو اپنی جان کہتے ہیں

محبت کی اسی مٹی کو ہندستان کہتے ہیں

مری خواہش ہے کہ آنگن میں نہ دیوار اٹھے

مرے بھائی مرے حصے کی زمیں تو رکھ لے

سورج ستارے چاند مرے ساتھ میں رہے

جب تک تمہارے ہاتھ مرے ہاتھ میں رہے

ہمارے میر تقی میرؔ نے کہا تھا کبھی

میاں یہ عاشقی عزت بگاڑ دیتی ہے

میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ

گیلی زمین کھود کے فرہاد ہو گئے

دن ڈھل گیا تو رات گزرنے کی آس میں

سورج ندی میں ڈوب گیا ہم گلاس میں

ایک ہی ندی کے ہیں یہ دو کنارے دوستو

دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو

شہر کیا دیکھیں کہ ہر منظر میں جالے پڑ گئے

ایسی گرمی ہے کہ پیلے پھول کالے پڑ گئے

اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو

دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے

میں آ کر دشمنوں میں بس گیا ہوں

یہاں ہمدرد ہیں دو چار میرے

بوتلیں کھول کر تو پی برسوں

آج دل کھول کر بھی پی جائے

دوستی جب کسی سے کی جائے

دشمنوں کی بھی رائے لی جائے

میں نے اپنی خشک آنکھوں سے لہو چھلکا دیا

اک سمندر کہہ رہا تھا مجھ کو پانی چاہئے

روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے

چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے

یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے

نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو

مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو

سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اسے

اک ملاقات کا جادو کہ اترتا ہی نہیں

تری خوشبو مری چادر سے نہیں جاتی ہے

میں آخر کون سا موسم تمہارے نام کر دیتا

یہاں ہر ایک موسم کو گزر جانے کی جلدی تھی

میں مر جاؤں تو میری ایک الگ پہچان لکھ دینا

لہو ث میری پیشانی پے ہندستان لکھ دینا

اب اتنی ساری شبوں کا حساب کون رکھے

بڑے ثواب کمائے گئے جوانی میں

جا نمازوں کی طرح نور میں اجلائی سحر

رات بھر جیسے فرشتوں نے عبادت کی ہے

تجھ سے ملنے کی تمنا بھی بہت ہے لیکن

آنے جانے میں کرایہ بھی بہت لگتا ہے

گھر کے باہر ڈھونڈھتا رہتا ہوں دنیا

گھر کے اندر دنیا داری رہتی ہے

تیری محفل سے جو نکلا تو یہ منظر دیکھا

مجھے لوگوں نے بلایا مجھے چھو کر دیکھا

کالج کے سب بچے چپ ہیں کاغذ کی اک ناؤ لیے

چاروں طرف دریا کی صورت پھیلی ہوئی بیکاری ہے

شام نے جب پلکوں پہ آتش دان لیا

کچھ یادوں نے چٹکی میں لوبان لیا

نئے کردار آتے جا رہے ہیں

مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے

اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے

عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے

وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا

میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا

میں کروٹوں کے نئے ذائقے لکھوں شب بھر

یہ عشق ہے تو کہاں زندگی عذاب کروں

چراغوں کا گھرانا چل رہا ہے

ہوا سے دوستانہ چل رہا ہے

بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر

جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں

ستارو آؤ مری راہ میں بکھر جاؤ

یہ میرا حکم ہے حالانکہ کچھ نہیں ہوں میں

آتے جاتے پل یہ کہتے ہیں ہمارے کان میں

کوچ کا اعلان ہونے کو ہے تیاری رکھو

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے