Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Riyaz Khairabadi's Photo'

ریاضؔ خیرآبادی

1853 - 1934 | خیراباد, انڈیا

خمریات کے لئے مشہور جب کہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شراب کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا

خمریات کے لئے مشہور جب کہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شراب کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا

ریاضؔ خیرآبادی کے اشعار

12.1K
Favorite

باعتبار

ریاضؔ آنے میں ہے ان کے ابھی دیر

چلو ہو آئیں مرگ ناگہاں تک

کیا مزا دیتی ہے بجلی کی چمک مجھ کو ریاضؔ

مجھ سے لپٹے ہیں مرے نام سے ڈرنے والے

جس دن سے حرام ہو گئی ہے

مے خلد مقام ہو گئی ہے

مر گیا ہوں پہ تعلق ہے یہ مے خانے سے

میرے حصے کی چھلک جاتی ہے پیمانے سے

شوخی سے ہر شگوفے کے ٹکڑے اڑا دیئے

جس غنچہ پر نگاہ پڑی دل بنا دیا

میری سج دھج تو کوئی عشق بتاں میں دیکھے

ساتھ قشقہ کے ہے زنار برہمن کیسا

ظرف وضو ہے جام ہے اک خم ہے اک سبو

اک بوریا ہے میں ہوں مری خانقاہ ہے

چھپتا نہیں چھپانے سے عالم ابھار کا

آنچل کی تہہ سے دیکھ نمودار کیا ہوا

ہم جانتے ہیں لطف تقاضائے مے فروش

وہ نقد میں کہاں جو مزا ہے ادھار میں

رنگ لائے گا دیدۂ پر آب

دیکھنا دیدۂ پر آب کا رنگ

یہ کمبخت اک جہان آرزو ہے

نہ ہو کوئی ہمارا دل ہو ہم ہوں

زیر مسجد مے کدہ میں میکدے میں مست خواب

چونک اٹھا جب دی موذن نے اذاں بالائے سر

وہ جوبن بہت سر اٹھائے ہوئے ہیں

بہت تنگ بند قبا ہے کسی کا

اب مجرمان عشق سے باقی ہوں ایک میں

اے موت رہنے دے مجھے عبرت کے واسطے

ڈراتا ہے ہمیں محشر سے تو واعظ ارے جا بھی

یہ ہنگامے تو ہم نے روز کوئے یار میں دیکھے

نجد میں کیا قیس کا ہے عرس آج

ننگے ننگے جمع ہیں حمام میں

قلقل مینا صدا ناقوس کی شور اذاں

ٹھنڈے ٹھنڈے دیدنی ہے گرمیٔ بازار صبح

کہاں یہ بات حاصل ہے تری مسجد کو اے زاہد

سحر ہوتے جو ہم نے دیکھے ہیں جھرمٹ شوالے میں

کلی چمن میں کھلی تو مجھے خیال آیا

کسی کے بند قبا کی گرہ کھلی ہوگی

نشانہ بنے دل رہے تیر دل میں

نشانی نہیں اس نشانی سے اچھی

کوئی زمانہ میں روتا ہے کوئی ہنستا ہے

یہاں کسی سے کسی کی صدا نہیں ملتی

لب میگوں کا تقاضا ہے کہ جینا ہوگا

آنکھ کہتی ہے تجھے زہر بھی پینا ہوگا

میرے گھر میں غیر کے ڈر سے کبھی چھپ جائیے

غیر کے گھر میں چھپے تھے آج کس کی ڈر سے آپ

غلط ہے آپ نہ تھے ہم کلام خلوت میں

عدو سے آپ کی تصویر بولتی ہوگی

تھا بہت ان کو گلوری کا اٹھانا مشکل

دست نازک سے دیا پان بڑی مشکل سے

پیری میں ریاضؔ اب بھی جوانی کے مزے ہیں

یہ ریش سفید اور مئے ہوش ربا سرخ

ایک واعظ ہے کہ جس کی دعوتوں کی دھوم ہے

ایک ہم ہیں جس کے گھر کل مے ادھار آنے کو تھی

خدا کے ہاتھ ہے بکنا نہ بکنا مے کا اے ساقی

برابر مسجد جامع کے ہم نے اب دکاں رکھ دی

خدا آباد رکھے میکدے کو

بہت سستے چھٹے دنیا و دیں سے

ریاضؔ توبہ نہ ٹوٹے نہ مے کدہ چھوٹے

زباں کا پاس رہے وضع کا نباہ رہے

سنا ہے ریاضؔ اپنی داڑھی بڑھا کر

بڑھاپے میں اللہ والے ہوئے ہیں

یہ مے کدہ ہے کہ مسجد یہ آب ہے کہ شراب

کوئی بھی ظرف برائے وضو نہیں باقی

بہار آتے ہی پھولوں نے چھاؤنی چھائی

کہ ڈھونڈھتا ہوں مجھے آشیاں نہیں ملتا

کہتی ہے اے ریاضؔ درازی یہ ریش کی

ٹٹی کی آڑ میں ہے مزا کچھ شکار کا

ذرا جو ہم نے انہیں آج مہرباں دیکھا

نہ ہم سے پوچھیے کیا رنگ آسماں دیکھا

اہل حرم سے کہہ دو کہ بگڑی نہیں ہے بات

سب رند جانتے ہیں ابھی پارسا مجھے

قدر مجھ رند کی تجھ کو نہیں اے پیر مغاں

توبہ کر لوں تو کبھی مے کدہ آباد نہ ہو

نہ آیا ہمیں عشق کرنا نہ آیا

مرے عمر بھر اور مرنا نہ آیا

کیوں نہ ٹوٹے مری توبہ جو کہے تو ساقی

پی لے پی لے ارے گھنگھور گھٹا چھائی ہے

اتنی پی ہے کہ بعد توبہ بھی

بے پیے بے خودی سی رہتی ہے

بھر بھر کے جام بزم میں چھلکائے جاتے ہیں

ہم ان میں ہیں جو دور سے ترسائے جاتے ہیں

خواب میں بھی تو نظر بھر کے نہ دیکھا ان کو

یہ بھی آداب محبت کو گوارا نہ ہوا

گھر میں دس ہوں تو یہ رونق نہیں ہوگی گھر میں

ایک دیوانے سے آباد ہے صحرا کیسا

یہ سر بہ مہر بوتلیں ہیں جو شراب کی

راتیں ہیں ان میں بند ہماری شباب کی

پی کے اے واعظ ندامت ہے مجھے

پانی پانی ہوں تری تقریر سے

کہہ کے میں دل کی کہانی کس قدر کھویا گیا

ہیں فسانوں پر فسانے میرے افسانے کے بعد

غرور بھی جو کروں میں تو عاجزی ہو جائے

خودی میں لطف وہ آئے کہ بے خودی ہو جائے

ایسی ہی انتظار میں لذت اگر نہ ہو

تو دو گھڑی فراق میں اپنی بسر نہ ہو

آگے کچھ بڑھ کر ملے گی مسجد جامع ریاضؔ

اک ذرا مڑ جائیے گا میکدے کے در سے آپ

ڈر ہے نہ دوپٹہ کہیں سینے سے سرک جائے

پنکھا بھی ہمیں پاس سے جھلنے نہیں دیتے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے