Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Abdul Hamid Adam's Photo'

عبد الحمید عدم

1909 - 1981 | پاکستان

مقبول عام شاعر، زندگی اور محبت پر مبنی رومانی شاعری کے لیے معروف

مقبول عام شاعر، زندگی اور محبت پر مبنی رومانی شاعری کے لیے معروف

عبد الحمید عدم کے اشعار

63.7K
Favorite

باعتبار

سب کو پہنچا کے ان کی منزل پر

آپ رستے میں رہ گیا ہوں میں

جیب خالی ہے عدمؔ مے قرض پر ملتی نہیں

ایک دو بوتل پہ دیواں بیچنے والا ہوں میں

جن سے انساں کو پہنچتی ہے ہمیشہ تکلیف

ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اصل خدا والے ہیں

صرف اک قدم اٹھا تھا غلط راہ شوق میں

منزل تمام عمر مجھے ڈھونڈھتی رہی

اپنوں سے بھی اتنا تکلف

کتنے دنیا دار بنے ہو

کسی جانب سے کوئی مہ جبیں آنے ہی والا ہے

مجھے یاد آ رہی ہے آج متھرا اور کاشی کی

کس کو سمجھانے لگے آپ جناب ناصح

میں تو ناداں ہوں مگر آپ تو نادان نہیں

عدم بہت ہی اگر روٹھنے لگی امید

کسی کے وعدے پہ پھر اعتبار کر لوں گا

دل خوش ہوا ہے مسجد ویراں کو دیکھ کر

میری طرح خدا کا بھی خانہ خراب ہے

تشریح

اس شعر میں شاعر نے خدا سے چھیڑ کی ہے جو اردو غزل کی روایت میں شامل ہے۔ شاعر اللہ پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمہارے بندوں نے تمہاری بندگی چھوڑ دی ہے جس کی وجہ سے مسجد ویران ہوگئی ہے۔ چونکہ تم نے میری تقدیر میں خانہ خرابی لکھی تھی تو اب تمہارا خانہ خراب دیکھ کر میرا دل خوش ہوا ہے۔

شفق سوپوری

ہر دل فریب چیز نظر کا غبار ہے

آنکھیں حسین ہوں تو خزاں بھی بہار ہے

کچھ کچھ مری آنکھوں کا تصرف بھی ہے شامل

اتنا تو حسیں تو مرے گلفام نہیں ہے

دل ابھی پوری طرح ٹوٹا نہیں

دوستوں کی مہربانی چاہئے

میں بد نصیب ہوں مجھ کو نہ دے خوشی اتنی

کہ میں خوشی کو بھی لے کر خراب کر دوں گا

مے کدہ ہے یہاں سکوں سے بیٹھ

کوئی آفت ادھر نہیں آتی

کسی حسیں سے لپٹنا اشد ضروری ہے

ہلال عید تو کوئی ثبوت عید نہیں

ہم کو شاہوں کی عدالت سے توقع تو نہیں

آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں

یہ روزمرہ کے کچھ واقعات شادیٔ و غم

مرے خدا یہی انساں کی زندگانی ہے

محشر میں اک سوال کیا تھا کریم نے

مجھ سے وہاں بھی آپ کی تعریف ہو گئی

میں یوں تلاش یار میں دیوانہ ہو گیا

کعبے میں پاؤں رکھا تو بت خانہ ہو گیا

میں مے کدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا

ورنہ سفر حیات کا کافی طویل تھا

بارش شراب عرش ہے یہ سوچ کر عدمؔ

بارش کے سب حروف کو الٹا کے پی گیا

جی چاہتا ہے آج عدمؔ ان کو چھیڑئیے

ڈر ڈر کے پیار کرنے میں کوئی مزا نہیں

اجازت ہو تو میں تصدیق کر لوں تیری زلفوں سے

سنا ہے زندگی اک خوبصورت دام ہے ساقی

کاش میں تیری ملاقات کو خود ہی آتا

طور پر بھیج کے موسیٰ کو پشیماں ہوں میں

تخلیق کائنات کے دلچسپ جرم پر

ہنستا تو ہوگا آپ بھی یزداں کبھی کبھی

گلوں کو کھل کے مرجھانا پڑا ہے

تبسم کی سزا کتنی بڑی ہے

ہم نے تمہارے بعد نہ رکھی کسی سے آس

اک تجربہ بہت تھا بڑے کام آ گیا

لوگ کہتے ہیں کہ تم سے ہی محبت ہے مجھے

تم جو کہتے ہو کہ وحشت ہے تو وحشت ہوگی

موضوع گفتگو تو مری جاں کچھ اور تھا

دوران گفتگو میں تیری بات آ گئی

بڑھ کے طوفان کو آغوش میں لے لے اپنی

ڈوبنے والے ترے ہاتھ سے ساحل تو گیا

یہ الگ بات ہے ساقی کہ مجھے ہوش نہیں

ہوش اتنا ہے کہ میں تجھ سے فراموش نہیں

زندگی زور ہے روانی کا

کیا تھمے گا بہاؤ پانی کا

چلی ہے جب بھی دنیا کے مظالم کی شکایت سے

تو اکثر التفات دوستاں تک بات پہنچی ہے

آپ اک زحمت نظر تو کریں

کون بے ہوش ہو نہیں سکتا

ساقی مجھے شراب کی تہمت نہیں پسند

مجھ کو تری نگاہ کا الزام چاہیئے

مرنے والے تو خیر ہیں بے بس

جینے والے کمال کرتے ہیں

ہولے ہولے وصل ہوا

دھیرے دھیرے جان گئی

مدعا دور تک گیا لیکن

آرزو لوٹ کر نہیں آئی

کبھی تو دیر و حرم سے تو آئے گا واپس

میں مے کدے میں ترا انتظار کر لوں گا

ذرا اک تبسم کی تکلیف کرنا

کہ گلزار میں پھول مرجھا رہے ہیں

وہ حسیں بیٹھا تھا جب میرے قریب

لذت ہمسائیگی تھی میں نہ تھا

جنوں اب منزلیں طے کر رہا ہے

خرد رستہ دکھا کر رہ گئی ہے

مجھے توبہ کا پورا اجر ملتا ہے اسی ساعت

کوئی زہرہ جبیں پینے پہ جب مجبور کرتا ہے

اے دوست محبت کے صدمے تنہا ہی اٹھانے پڑتے ہیں

رہبر تو فقط اس رستے میں دو گام سہارا دیتے ہیں

نوجوانی میں پارسا ہونا

کیسا کار زبون ہے پیارے

سوال کر کے میں خود ہی بہت پشیماں ہوں

جواب دے کے مجھے اور شرمسار نہ کر

دیکھا ہے کس نگاہ سے تو نے ستم ظریف

محسوس ہو رہا ہے میں غرق شراب ہوں

میرے ہونے میں مرا اپنا نہیں تھا کچھ شریک

میری ہستی صرف تیرے اعتنا کی بات تھی

شکن نہ ڈال جبیں پر شراب دیتے ہوئے

یہ مسکراتی ہوئی چیز مسکرا کے پلا

تشریح

جبیں یعنی ماتھا۔ جبیں پر شکن ڈالنے کے کئی معنی ہیں۔ جیسے غصہ کرنا، کسی سے روکھائی سے پیش آنا وغیرہ۔ شاعر اپنے ساقی یعنی محبوب سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ شراب ایک مسکراتی ہوئی چیز ہے اور اسے کسی کو دیتے ہوئے ماتھے پر شکن لانا اچھی بات نہیں کیونکہ اگر ساقی ماتھے پر شکن لاکر کسی کو شراب پلاتا ہے تو پھر اس کا اصلی مزہ جاتا رہتا ہے۔ اس لئے ساقی پر لازم ہے کہ وہ دستورِ مے نے نوشی کا لحاظ کرتے ہوئے پلانے والے کو شراب مسکرا کر پلائے۔

شفق سوپوری

تھوڑی سی عقل لائے تھے ہم بھی مگر عدمؔ

دنیا کے حادثات نے دیوانہ کر دیا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے