Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Afzal Minhas's Photo'

افضل منہاس

1923 - 1997 | راول پنڈی, پاکستان

افضل منہاس کے اشعار

2K
Favorite

باعتبار

جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں

ان کو زباں ملی تو ہمیں پر برس پڑے

دل کی مسجد میں کبھی پڑھ لے تہجد کی نماز

پھر سحر کے وقت ہونٹوں پر دعا بھی آئے گی

اپنی بلندیوں سے گروں بھی تو کس طرح

پھیلی ہوئی فضاؤں میں بکھرا ہوا ہوں میں

درد زنجیر کی صورت ہے دلوں میں موجود

اس سے پہلے تو کبھی اس کے یہ پیرائے نہ تھے

چاند میں کیسے نظر آئے تری صورت مجھے

آندھیوں سے آسماں کا رنگ میلا ہو گیا

اجلی اجلی خواہشوں پر نیند کی چادر نہ ڈال

یاد کے روزن سے کچھ تازہ ہوا بھی آئے گی

وہ دور اب کہاں کہ تمہاری ہو جستجو

اس دور میں تو ہم کو خود اپنی تلاش ہے

یہ بھی شاید زندگی کی اک ادا ہے دوستو

جس کو ساتھی مل گیا وہ اور تنہا ہو گیا

کیا فیصلہ دیا ہے عدالت نے چھوڑیئے

مجرم تو اپنے جرم کا اقبال کر گیا

انسان بے حسی سے ہے پتھر بنا ہوا

منہ میں زبان بھی ہے لہو بھی رگوں میں ہے

ایک ہی فن کار کے شہکار ہیں دنیا کے لوگ

کوئی برتر کس لیے ہے کوئی کم تر کس لیے

ہوا کے پھول مہکنے لگے مجھے پا کر

میں پہلی بار ہنسا زخم کو چھپائے ہوئے

زندگی کی ظلمتیں اپنے لہو میں رچ گئیں

تب کہیں جا کر ہمیں آنکھوں کی بینائی ملی

تجھ کو سکوں نہیں ہے تو مٹی میں ڈوب جا

آباد اک جہان زمیں کی تہوں میں ہے

بکھرے ہوئے ہیں دل میں مری خواہشوں کے رنگ

اب میں بھی اک سجا ہوا بازار ہو گیا

زندگی اتنی پریشاں ہے یہ سوچا بھی نہ تھا

اس کے اطراف میں شعلوں کا سمندر دیکھا

لوگ میری موت کے خواہاں ہیں افضلؔ کس لیے

چند غزلوں کے سوا کچھ بھی نہیں سامان میں

سطح دریا پر ابھرنے کی تمنا ہی نہیں

عرش پر پہنچے ہوئے ہیں جب سے گہرائی ملی

رستے میں کوئی پیڑ جو مل جائے تو بیٹھوں

وہ بار اٹھایا ہے کہ دکھنے لگے شانے

جانے یہ حدت چمن کو راس آئے یا نہیں

آگ جیسی کیفیت ہے خوشبوؤں کی لہر میں

اپنے ماحول سے کچھ یوں بھی تو گھبرائے نہ تھے

سنگ لپٹے ہوئے پھولوں میں نظر آئے نہ تھے

بکھرتے جسم لے کر تند طوفانوں میں بیٹھے ہیں

کوئی ذرے کی صورت ہے کوئی ٹیلے کی صورت ہے

گر پڑا تو آخری زینے کو چھو کر کس لیے

آ گیا پھر آسمانوں سے زمیں پر کس لیے

Recitation

بولیے