Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ismail Merathi's Photo'

اسماعیل میرٹھی

1844 - 1917 | میرٹھ, انڈیا

بچوں کی شاعری کے لئے مشہور

بچوں کی شاعری کے لئے مشہور

اسماعیل میرٹھی کے اشعار

9.5K
Favorite

باعتبار

کیا فکر آب و نان کہ غم کہہ رہا ہے اب

موجود ہوں ضیافت دل اور جگر کو میں

تو ہی ظاہر ہے تو ہی باطن ہے

تو ہی تو ہے تو میں کہاں تک ہوں

کیا ہو گیا اسے کہ تجھے دیکھتی نہیں

جی چاہتا ہے آگ لگا دوں نظر کو میں

اندیشہ ہے کہ دے نہ ادھر کی ادھر لگا

مجھ کو تو ناپسند وطیرے صبا کے ہیں

روز جزا میں آخر پوچھا نہ جائے گا کیا

تیرا یہ چپ لگانا میرا سوال کرنا

شیخ اور برہمن میں اگر لاگ ہے تو ہو

دونوں شکار غمزہ اسی دل ربا کے ہیں

پروانہ کی تپش نے خدا جانے کان میں

کیا کہہ دیا کہ شمع کے سر سے دھواں اٹھا

اظہار حال کا بھی ذریعہ نہیں رہا

دل اتنا جل گیا ہے کہ آنکھوں میں نم نہیں

ہر شکل میں تھا وہی نمودار

ہم نے ہی نگاہ سرسری کی

ہے آج رخ ہوا کا موافق تو چل نکل

کل کی کسے خبر ہے کدھر کی ہوا چلے

واں سجدۂ نیاز کی مٹی خراب ہے

جب تک کہ آب دیدہ سے تازہ وضو نہ ہو

سمجھتے ہیں شیروں کو بھی نرم چارہ

غزالان شہری سے ہشیار رہنا

مانا بری خبر ہے پہ تیری خبر تو ہے

صبر و قرار نذر کروں نامہ بر کو میں

ہاں دل بے تاب چندے انتظار

امن و راحت کا ٹھکانہ اور ہے

کھولا ہے مجھ پہ سر حقیقت مجاز نے

یہ پختگی صلہ ہے خیالات خام کا

دلبری جذب محبت کا کرشمہ ہے فقط

کچھ کرامت نہیں جادو نہیں اعجاز نہیں

با‌ ایں ہمہ درماندگی انساں کے یہ دعوے

کیا ذات شریف ان کو بنایا ہے خدا نے

تو نہ ہو یہ تو ہو نہیں سکتا

میرا کیا تھا ہوا ہوا نہ ہوا

حبس دوام تو نہیں دنیا کہ مر رہوں

کاہے کو گھر خیال کروں رہ گزر کو میں

گر دیکھیے تو خاطر ناشاد شاد ہے

سچ پوچھیے تو ہے دل ناکام کام کا

دوستی اور کسی غرض کے لئے

وہ تجارت ہے دوستی ہی نہیں

تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا

کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا

سب کچھ تو کیا ہم نے پہ کچھ بھی نہ کیا ہائے

حیران ہیں کیا جانیے کیا ہو نہیں سکتا

لکھی تھی غزل یہ آگرہ میں

پہلی تاریخ جنوری کی

کیا کوہ کن کی کوہ کنی کیا جنون قیس

وادیٔ عشق میں یہ مقام ابتدا کے ہیں

روشن ہے آفتاب کی نسبت چراغ سے

نسبت وہی ہے آپ میں اور آفتاب میں

بد کی صحبت میں مت بیٹھو اس کا ہے انجام برا

بد نہ بنے تو بد کہلائے بد اچھا بد نام برا

تھی چھیڑ اسی طرف سے ورنہ

میں اور مجال آرزو کی

جب غنچہ کو واشد ہوئی تحریک صبا سے

بلبل سے عجب کیا جو کرے نغمہ سرائی

تمہارے دل سے کدورت مٹائے تو جانیں

کھلا ہے شہر میں اک محکمہ صفائی کا

کچھ نہ بن آئے گی جب لوٹ مچائے گی خزاں

غنچہ ہر چند گرہ کس کے زر گل باندھے

صبح کے بھولے تو آئے شام کو

دیکھیے کب آئیں بھولے شام کے

نعمت خلد تھی بشر کے لئے

خاک چاٹی نظر گزر کے لئے

صدر آرا تو جہاں ہو صدر ہے

آگرہ کیا اور الہ آباد کیا

مر چکے جیتے جی خوشا قسمت

اس سے اچھی تو زندگی ہی نہیں

جھوٹ اور مبالغہ نے افسوس

عزت کھو دی سخنوری کی

جس نے چشم مست ساقی دیکھ لی

تا قیامت اس پہ ہشیاری حرام

چھری کا تیر کا تلوار کا تو گھاؤ بھرا

لگا جو زخم زباں کا رہا ہمیشہ ہرا

گر خندہ یاد آئے تو سینہ کو چاک کر

گر غمزہ یاد آئے تو زخم سناں اٹھا

اٹھا حجاب تو بس دین و دل دیئے ہی بنی

جناب شیخ کو دعویٰ تھا پارسائی کا

ہے اشک و آہ راس ہمارے مزاج کو

یعنی پلے ہوئے اسی آب و ہوا کے ہیں

یاران بزم دہر میں کیا کیا تپاک تھا

لیکن جب اٹھ گئے تو نہ بار دگر ملے

ہے اس انجمن میں یکساں عدم و وجود میرا

کہ جو میں یہاں نہ ہوتا یہی کاروبار ہوتا

اغیار کیوں دخیل ہیں بزم سرور میں

مانا کہ یار کم ہیں پر اتنے تو کم نہیں

اپنی ہی جلوہ گری ہے یہ کوئی اور نہیں

غور سے دیکھ اگر آنکھ میں بینائی ہے

اسراف نے ارباب تمول کو ڈبویا

عالم کو تفاخر نے تو زاہد کو ریا نے

کبھی بھول کر کسی سے نہ کرو سلوک ایسا

کہ جو تم سے کوئی کرتا تمہیں ناگوار ہوتا

تاثیر ہو کیا خاک جو باتوں میں گھڑت ہو

کچھ بات نکلتی ہے تو بے ساختہ پن میں

دریا کی طرح رواں ہوں لیکن

اب تک بھی وہیں ہوں میں جہاں ہوں

سیر ورود قافلۂ نو بہار دیکھ

برپا خیام اوج ہوا میں گھٹا کے ہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے