Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زکریا شاذ کے اشعار

847
Favorite

باعتبار

اے گردش ایام ہمیں رنج بہت ہے

کچھ خواب تھے ایسے کہ بکھرنے کے نہیں تھے

میں چپ رہا تو آنکھ سے آنسو ابل پڑے

جب بولنے لگا مری آواز پھٹ گئی

یہ محبت ہے اسے دیکھ تماشا نہ بنا

مجھ سے ملنا ہے تو مل حد ادب سے آگے

چھوڑ آیا ہوں پیچھے سب آوازوں کو

خاموشی میں داخل ہونے والا ہوں

آخر یہ ناکام محبت کام آئی

تجھ کو کھو کر میں نے خود کو پایا ہے

صرف ہم ہی تو نہیں ٹوٹے ہیں

راستوں پر بھی تھکن طاری ہے

ایک مدت میں خموشی سے رہا محو کلام

تب کہیں جا کے یہ لفظوں میں معانی آئے

اک جیسے ہیں دکھ سکھ سب کے اک جیسی امیدیں

ایک کہانی سب کی کیا عنوان کسی کا رکھیں

اس سے آگے جاؤ گے تب جانیں گے

منزل تک تو راستہ تم کو لایا ہے

کھڑکی تو شاذؔ بند میں کرتا ہوں بار بار

لیکن ہوائے شوق کہ ضد پر اڑی رہے

ان کو بھی اتارا ہے بڑے شوق سے ہم نے

جو نقش ابھی دل میں اترنے کے نہیں تھے

جانے کیا بات ہے پورے ہی نہیں ہوتے ہیں

جانے کیا دل میں خسارے لیے پھرتا ہوں میں

جب بھی گھر کے اندر دیکھنے لگتا ہوں

کھڑکی کھول کے باہر دیکھنے لگتا ہوں

یہ الگ بات کہ چلتے رہے سب سے آگے

ورنہ دیکھا ہی نہیں تیری طلب سے آگے

دکھ نہ سہنے کی سزاؤں میں گھرا رہتا ہے

شہر کا شہر دعاؤں میں گھرا رہتا ہے

اپنے ہی بس پیچھے بھاگتا رہتا ہوں

خود کو ہی بس آگے نظر کے رکھا ہے

تعلق ہی نہیں ہے جن سے میرا

میں ان خدشات میں رکھا ہوا ہوں

کچھ بھی دیکھا نہیں تھا میں نے جب

ہر نظارہ تھا میری آنکھوں میں

یہ کیسے موڑ پر میں آ گیا ہوں

کہ چلتا ہوں تو چلتا راستہ ہے

شاذؔ خود میں ہی گنوائے ہوئے خود کو رکھنا

ہاتھ جب تک نہ کوئی اپنی نشانی آئے

کس قیامت کی گھٹن طاری ہے

روح پر کب سے بدن طاری ہے

زمانے ہو گئے ہیں چلتے چلتے

کہاں جاتا یہ دل کا راستہ ہے

کیسے کہہ دوں بیچ اپنے دیوار ہے جب

چھوڑنے کوئی دروازے تک آیا ہے

پھاندنی پڑ گئی کانٹوں سے بھری باڑ ہمیں

جتنے پیغام تھے پھولوں کی زبانی آئے

اس کا خیال دل میں گھڑی دو گھڑی رہے

پھر اس کے بعد میز پہ چائے پڑی رہے

Recitation

بولیے