Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Abdul Hamid Adam's Photo'

عبد الحمید عدم

1909 - 1981 | پاکستان

مقبول عام شاعر، زندگی اور محبت پر مبنی رومانی شاعری کے لیے معروف

مقبول عام شاعر، زندگی اور محبت پر مبنی رومانی شاعری کے لیے معروف

عبد الحمید عدم کے اشعار

66.8K
Favorite

باعتبار

دل ابھی پوری طرح ٹوٹا نہیں

دوستوں کی مہربانی چاہئے

جن سے انساں کو پہنچتی ہے ہمیشہ تکلیف

ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اصل خدا والے ہیں

بارش شراب عرش ہے یہ سوچ کر عدمؔ

بارش کے سب حروف کو الٹا کے پی گیا

اے غم زندگی نہ ہو ناراض

مجھ کو عادت ہے مسکرانے کی

میں مے کدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا

ورنہ سفر حیات کا کافی طویل تھا

بڑھ کے طوفان کو آغوش میں لے لے اپنی

ڈوبنے والے ترے ہاتھ سے ساحل تو گیا

تکلیف مٹ گئی مگر احساس رہ گیا

خوش ہوں کہ کچھ نہ کچھ تو مرے پاس رہ گیا

اک حسیں آنکھ کے اشارے پر

قافلے راہ بھول جاتے ہیں

مسکراہٹ ہے حسن کا زیور

مسکرانا نہ بھول جایا کرو

ساقی مجھے شراب کی تہمت نہیں پسند

مجھ کو تری نگاہ کا الزام چاہیئے

کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیں

جا مے کدے سے میری جوانی اٹھا کے لا

حسن اک دل ربا حکومت ہے

عشق اک قدرتی غلامی ہے

تھوڑی سی عقل لائے تھے ہم بھی مگر عدمؔ

دنیا کے حادثات نے دیوانہ کر دیا

میں عمر بھر جواب نہیں دے سکا عدمؔ

وہ اک نظر میں اتنے سوالات کر گئے

شکن نہ ڈال جبیں پر شراب دیتے ہوئے

یہ مسکراتی ہوئی چیز مسکرا کے پلا

تشریح

جبیں یعنی ماتھا۔ جبیں پر شکن ڈالنے کے کئی معنی ہیں۔ جیسے غصہ کرنا، کسی سے روکھائی سے پیش آنا وغیرہ۔ شاعر اپنے ساقی یعنی محبوب سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ شراب ایک مسکراتی ہوئی چیز ہے اور اسے کسی کو دیتے ہوئے ماتھے پر شکن لانا اچھی بات نہیں کیونکہ اگر ساقی ماتھے پر شکن لاکر کسی کو شراب پلاتا ہے تو پھر اس کا اصلی مزہ جاتا رہتا ہے۔ اس لئے ساقی پر لازم ہے کہ وہ دستورِ مے نے نوشی کا لحاظ کرتے ہوئے پلانے والے کو شراب مسکرا کر پلائے۔

شفق سوپوری

ذرا اک تبسم کی تکلیف کرنا

کہ گلزار میں پھول مرجھا رہے ہیں

کون انگڑائی لے رہا ہے عدمؔ

دو جہاں لڑکھڑائے جاتے ہیں

جب ترے نین مسکراتے ہیں

زیست کے رنج بھول جاتے ہیں

صرف اک قدم اٹھا تھا غلط راہ شوق میں

منزل تمام عمر مجھے ڈھونڈھتی رہی

اجازت ہو تو میں تصدیق کر لوں تیری زلفوں سے

سنا ہے زندگی اک خوبصورت دام ہے ساقی

شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ

محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں

چھوڑا نہیں خودی کو دوڑے خدا کے پیچھے

آساں کو چھوڑ بندے مشکل کو ڈھونڈتے ہیں

وہ ملے بھی تو اک جھجھک سی رہی

کاش تھوڑی سی ہم پئے ہوتے

دل خوش ہوا ہے مسجد ویراں کو دیکھ کر

میری طرح خدا کا بھی خانہ خراب ہے

تشریح

اس شعر میں شاعر نے خدا سے چھیڑ کی ہے جو اردو غزل کی روایت میں شامل ہے۔ شاعر اللہ پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمہارے بندوں نے تمہاری بندگی چھوڑ دی ہے جس کی وجہ سے مسجد ویران ہوگئی ہے۔ چونکہ تم نے میری تقدیر میں خانہ خرابی لکھی تھی تو اب تمہارا خانہ خراب دیکھ کر میرا دل خوش ہوا ہے۔

شفق سوپوری

جن کو دولت حقیر لگتی ہے

اف وہ کتنے امیر ہوتے ہیں

سوال کر کے میں خود ہی بہت پشیماں ہوں

جواب دے کے مجھے اور شرمسار نہ کر

میں بد نصیب ہوں مجھ کو نہ دے خوشی اتنی

کہ میں خوشی کو بھی لے کر خراب کر دوں گا

لوگ کہتے ہیں کہ تم سے ہی محبت ہے مجھے

تم جو کہتے ہو کہ وحشت ہے تو وحشت ہوگی

ساقی ذرا نگاہ ملا کر تو دیکھنا

کمبخت ہوش میں تو نہیں آ گیا ہوں میں

مے کدہ ہے یہاں سکوں سے بیٹھ

کوئی آفت ادھر نہیں آتی

مرنے والے تو خیر ہیں بے بس

جینے والے کمال کرتے ہیں

حد سے بڑھ کر حسین لگتے ہو

جھوٹی قسمیں ضرور کھایا کرو

بعض اوقات کسی اور کے ملنے سے عدمؔ

اپنی ہستی سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے

شوقیہ کوئی نہیں ہوتا غلط

اس میں کچھ تیری رضا موجود ہے

پہلے بڑی رغبت تھی ترے نام سے مجھ کو

اب سن کے ترا نام میں کچھ سوچ رہا ہوں

کشتی چلا رہا ہے مگر کس ادا کے ساتھ

ہم بھی نہ ڈوب جائیں کہیں نا خدا کے ساتھ

یہ کیا کہ تم نے جفا سے بھی ہاتھ کھینچ لیا

مری وفاؤں کا کچھ تو صلہ دیا ہوتا

کبھی تو دیر و حرم سے تو آئے گا واپس

میں مے کدے میں ترا انتظار کر لوں گا

سب کو پہنچا کے ان کی منزل پر

آپ رستے میں رہ گیا ہوں میں

چھپ چھپ کے جو آتا ہے ابھی میری گلی میں

اک روز مرے ساتھ سر عام چلے گا

بولے کوئی ہنس کر تو چھڑک دیتے ہیں جاں بھی

لیکن کوئی روٹھے تو منایا نہیں جاتا

زندگی ہے اک کرائے کی خوشی

سوکھتے تالاب کا پانی ہوں میں

دیکھا ہے کس نگاہ سے تو نے ستم ظریف

محسوس ہو رہا ہے میں غرق شراب ہوں

آنکھ کا اعتبار کیا کرتے

جو بھی دیکھا وہ خواب میں دیکھا

پھر آج عدمؔ شام سے غمگیں ہے طبیعت

پھر آج سر شام میں کچھ سوچ رہا ہوں

محشر میں اک سوال کیا تھا کریم نے

مجھ سے وہاں بھی آپ کی تعریف ہو گئی

سو بھی جا اے دل مجروح بہت رات گئی

اب تو رہ رہ کے ستاروں کو بھی نیند آتی ہے

آنکھوں سے پلاتے رہو ساغر میں نہ ڈالو

اب ہم سے کوئی جام اٹھایا نہیں جاتا

لذت غم تو بخش دی اس نے

حوصلے بھی عدمؔ دیے ہوتے

زبان ہوش سے یہ کفر سرزد ہو نہیں سکتا

میں کیسے بن پئے لے لوں خدا کا نام اے ساقی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے