Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shariq Kaifi's Photo'

شارق کیفی

1961 | بریلی, انڈیا

برصغیر کے سب سے نمایاں معاصر شعرا میں سے ایک، نظم اور غزل دونوں میں یکساں تخلیقی صلاحیت کے حامل

برصغیر کے سب سے نمایاں معاصر شعرا میں سے ایک، نظم اور غزل دونوں میں یکساں تخلیقی صلاحیت کے حامل

شارق کیفی کے اشعار

12.7K
Favorite

باعتبار

قرب کا اس کے اٹھا کر فائدہ

ہجر کا ساماں اکٹھا کر لیا

سب آسان ہوا جاتا ہے

مشکل وقت تو اب آیا ہے

کبھی خود کو چھو کر نہیں دیکھتا ہوں

خدا جانے کس وہم میں مبتلا ہوں

نیا یوں ہے کہ ان دیکھا ہے سب کچھ

یہاں تک روشنی آتی کہاں تھی

بھیڑ میں جب تک رہتے ہیں جوشیلے ہیں

الگ الگ ہم لوگ بہت شرمیلے ہیں

کہیں نہ تھا وہ دریا جس کا ساحل تھا میں

آنکھ کھلی تو اک صحرا کے مقابل تھا میں

پہلی بار وہ خط لکھا تھا

جس کا جواب بھی آ سکتا تھا

لوگ سہہ لیتے تھے ہنس کر کبھی بے زاری بھی

اب تو مشکوک ہوئی اپنی ملن ساری بھی

جیسے یہ میز مٹی کا ہاتھی یہ پھول

ایک کونے میں ہم بھی ہیں رکھے ہوئے

میں کسی دوسرے پہلو سے اسے کیوں سوچوں

یوں بھی اچھا ہے وہ جیسا نظر آتا ہے مجھے

نہیں میں حوصلہ تو کر رہا تھا

ذرا تیرے سکوں سے ڈر رہا تھا

جھوٹ پر اس کے بھروسا کر لیا

دھوپ اتنی تھی کہ سایا کر لیا

کون کہے معصوم ہمارا بچپن تھا

کھیل میں بھی تو آدھا آدھا آنگن تھا

سب گزرتے رہے صف بہ صف پاس سے

میرے سینے پہ اک پھول رکھتے ہوئے

موت نے ساری رات ہماری نبض ٹٹولی

ایسا مرنے کا ماحول بنایا ہم نے

کس طرح آئے ہیں اس پہلی ملاقات تلک

اور مکمل ہے جدا ہونے کی تیاری بھی

رکا محفل میں اتنی دیر تک میں

اجالوں کا بڑھاپا دیکھ آیا

فاصلہ رکھ کے بھی کیا حاصل ہوا

آج بھی اس کا ہی کہلاتا ہوں میں

پتہ تھا مجھ کو ملاقات غیر ممکن ہے

سو تیرا دھیان کیا اور گلاب چوم لیا

دنیا شاید بھول رہی ہے

چاہت کچھ اونچا سنتی ہے

کہاں سوچا تھا میں نے بزم آرائی سے پہلے

یہ میری آخری محفل ہے تنہائی سے پہلے

کیا ملا دشت میں آ کر ترے دیوانے کو

گھر کے جیسا ہی اگر جاگنا سونا ہے یہاں

گھر میں خود کو قید تو میں نے آج کیا ہے

تب بھی تنہا تھا جب محفل محفل تھا میں

تسلی اب ہوئی کچھ دل کو میرے

تری گلیوں کو سونا دیکھ آیا

خموشی بس خموشی تھی اجازت اب ہوئی ہے

اشاروں کو ترے پڑھنے کی جرأت اب ہوئی ہے

کیسے ٹکڑوں میں اسے کر لوں قبول

جو مرا سارے کا سارا تھا کبھی

پتا نہیں یہ تمنائے قرب کب جاگی

مجھے تو صرف اسے سوچنے کی عادت تھی

رکھیں کیونکر حساب ایک ایک پل کا

بلا سے روز کم ہوتے ہوئے ہم

ہو سبب کچھ بھی مرے آنکھ بچانے کا مگر

صاف کر دوں کہ نظر کم نہیں آتا ہے مجھے

انتہا تک بات لے جاتا ہوں میں

اب اسے ایسے ہی سمجھاتا ہوں میں

بہت گدلا تھا پانی اس ندی کا

مگر میں اپنا چہرہ دیکھ آیا

کون تھا وہ جس نے یہ حال کیا ہے میرا

کس کو اتنی آسانی سے حاصل تھا میں

وہاں عید کیا وہاں دید کیا

جہاں چاند رات نہ آئی ہو

عمر بھر کس نے بھلا غور سے دیکھا تھا مجھے

وقت کم ہو تو سجا دیتی ہے بیماری بھی

رات تھی جب تمہارا شہر آیا

پھر بھی کھڑکی تو میں نے کھول ہی لی

یہی کمرہ تھا جس میں چین سے ہم جی رہے تھے

یہ تنہائی تو اتنی بے مروت اب ہوئی ہے

لرزتے کانپتے ہاتھوں سے بوڑھا

چلم میں پھر کوئی دکھ بھر رہا تھا

بینائی بھی کیا کیا دھوکے دیتی ہے

دور سے دیکھو سارے دریا نیلے ہیں

ابھی تو اچھی لگے گی کچھ دن جدائی کی رت

ابھی ہمارے لیے یہ سب کچھ نیا نیا ہے

عجب لہجے میں کرتے تھے در و دیوار باتیں

مرے گھر کو بھی شاید میری عادت اب ہوئی ہے

فیصلے اوروں کے کرتا ہوں

اپنی سزا کٹتی رہتی ہے

وہ بات سوچ کے میں جس کو مدتوں جیتا

بچھڑتے وقت بتانے کی کیا ضرورت تھی

عجب لہجے میں کرتے تھے در و دیوار باتیں

مرے گھر کو بھی شاید میری عادت اب ہوئی ہے

بہت بھٹکے تو ہم سمجھے ہیں یہ بات

برا ایسا نہیں اپنا مکاں بھی

کس احساس جرم کی سب کرتے ہیں توقع

اک کردار کیا تھا جس میں قاتل تھا میں

نیند کے واسطے ویسے بھی ضروری ہے تھکن

پیاس بھڑکائیں کسی سائے کا پیچھا کر آئیں

خواب ویسے تو اک عنایت ہے

آنکھ کھل جائے تو مصیبت ہے

اب مجھے کون جیت سکتا ہے

تو مرے دل کا آخری ڈر تھا

اچانک ہڑبڑا کر نیند سے میں جاگ اٹھا ہوں

پرانا واقعہ ہے جس پہ حیرت اب ہوئی ہے

بہت ہمت کا ہے یہ کام شارقؔ

کہ شرماتے نہیں ڈرتے ہوئے ہم

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے