Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تصویری شاعری

تصویری شاعری کا یہ پہلا ایسا آن لائن ذخیرہ ہے جس میں ہزاروں خوبصورت اشعار کو ان کے معنی کی مناسبت سے تصویروں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہ دیدہ زیب پیش کش نہ صرف شعر کو سمجھنے میں معاون ہوگی بلکہ اس کے ذریعے معنی کے نیےعلاقوں تک رسائی ممکن ہو سکے گی۔ ان شعروں کو پڑھیے، دیکھیے اور شعر فہموں کے ساتھ شئیر کیجیے۔

میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی

ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا

تشریح

میر کی شاعری تخیل کے عروج کی شاعری ہے۔ سادہ سے الفاظ میں آفاقی مضامین کو بیان کرنا میر کی شان ہے۔

میر نے زندگی بھر غم کو محسوس کیا غم کو برتا اور اس کو اپنی شاعری کے کینوس پر ابھارا۔ اس رنگا رنگی نے ان کے لہجے کو منفرد اور ان کو خدائے سخن بنا دیا۔

اس شعر میں شاعر انتہائی آسان لفظوں میں اپنے غم کا اظہار کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے اس کی زندگی غم اور درد میں بسر ہوئی ہے۔ پریشانیوں اور مصیبتوں میں گزری ہے۔ اس حد تک غموں میں گزری ہے کہ اپنے اوپر گزری ہوئی پریشانیوں کو جب اس نے کاغذ پر لکھا اور عین ممکن ہے کہ یہ کاغذ ایک خط کی شکل میں ہو جو اس نے اپنے محبوب کو بھیجا ہو، تو شدت غم سے اس کے آنسو اس کاغذ یا خط میں جذب ہو گئے۔ بعد میں وہ کاغذ آنسوؤں کے زیر اثر ایک لمبے عرصے تک رہ گیا یعنی نم رہا۔

اس ظاہری معنی کے علاوہ ایک اور تأثر بھی اس شعر سے ابھر کر آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ شاعر کی غمناک زندگی کی کہانی جس خط میں یا جس کاغذ میں تحریر تھی وہ کاغذ اس تحریر کی غمناکی کی وجہ سے گویا تصویر درد بن کر رہ گیا۔

غم کو برتنے اور اس کے زاویوں کا اظہار کرنے کا جو انداز میر کے ہاں ہے وہ شاید ہی کہیں اور ملتا ہو۔ میر بہت سادہ الفاظ میں اپنی ذات کو بیان کرتے ہیں اور ان کا بیانیہ آفاقی رنگ حاصل کر لیتا ہے۔ ایک اور ضروری نکتہ جو اس شعر کے تعلق سے بیان کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ اس شعر میں ایک کیفیت کو مبالغے کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے مگر یہ مبالغہ بہت حسین ہے، جس نے شعر کی کرافٹ کو بہت ہی رنگین بنا دیا ہے، بہت حسین بنا دیا ہے ۔

سہیل آزاد

تشریح

میر کی شاعری تخیل کے عروج کی شاعری ہے۔ سادہ سے الفاظ میں آفاقی مضامین کو بیان کرنا میر کی شان ہے۔

میر نے زندگی بھر غم کو محسوس کیا غم کو برتا اور اس کو اپنی شاعری کے کینوس پر ابھارا۔ اس رنگا رنگی نے ان کے لہجے کو منفرد اور ان کو خدائے سخن بنا دیا۔

اس شعر میں شاعر انتہائی آسان لفظوں میں اپنے غم کا اظہار کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے اس کی زندگی غم اور درد میں بسر ہوئی ہے۔ پریشانیوں اور مصیبتوں میں گزری ہے۔ اس حد تک غموں میں گزری ہے کہ اپنے اوپر گزری ہوئی پریشانیوں کو جب اس نے کاغذ پر لکھا اور عین ممکن ہے کہ یہ کاغذ ایک خط کی شکل میں ہو جو اس نے اپنے محبوب کو بھیجا ہو، تو شدت غم سے اس کے آنسو اس کاغذ یا خط میں جذب ہو گئے۔ بعد میں وہ کاغذ آنسوؤں کے زیر اثر ایک لمبے عرصے تک رہ گیا یعنی نم رہا۔

اس ظاہری معنی کے علاوہ ایک اور تأثر بھی اس شعر سے ابھر کر آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ شاعر کی غمناک زندگی کی کہانی جس خط میں یا جس کاغذ میں تحریر تھی وہ کاغذ اس تحریر کی غمناکی کی وجہ سے گویا تصویر درد بن کر رہ گیا۔

غم کو برتنے اور اس کے زاویوں کا اظہار کرنے کا جو انداز میر کے ہاں ہے وہ شاید ہی کہیں اور ملتا ہو۔ میر بہت سادہ الفاظ میں اپنی ذات کو بیان کرتے ہیں اور ان کا بیانیہ آفاقی رنگ حاصل کر لیتا ہے۔ ایک اور ضروری نکتہ جو اس شعر کے تعلق سے بیان کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ اس شعر میں ایک کیفیت کو مبالغے کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے مگر یہ مبالغہ بہت حسین ہے، جس نے شعر کی کرافٹ کو بہت ہی رنگین بنا دیا ہے، بہت حسین بنا دیا ہے ۔

سہیل آزاد

میر تقی میر

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے