aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غم پر اشعار

غم زندگی میں ایک مستقل

وجود کی حیثیت سے قائم ہے اس کے مقابلے میں خوشی کی حیثیت بہت عارضی ہے ۔ شاعری میں غمِ دوراں ، غمِ جاناں ، غمِ عشق ، غمِ روزگا جیسی ترکیبیں کثرت کے سا تھ استعمال میں آئی ہیں ۔ شاعری کا یہ حصہ دراصل زندگی کے سچ کا ایک تکلیف دہ بیانیہ ہے۔ ہمارا یہ انتخاب غم اوردکھ کے وسیع ترعلاقے کی ایک چھوٹی سی سیر ہے۔

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

فیض احمد فیض

کر رہا تھا غم جہاں کا حساب

آج تم یاد بے حساب آئے

فیض احمد فیض

اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے

تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے

وسیم بریلوی

ساری دنیا کے غم ہمارے ہیں

اور ستم یہ کہ ہم تمہارے ہیں

جون ایلیا

غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں

میں دل کو اس مقام پہ لاتا چلا گیا

ساحر لدھیانوی

اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے

بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے

شکیل بدایونی

پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے

خود راہ بنا لے گا بہتا ہوا پانی ہے

بشیر بدر

میری قسمت میں غم گر اتنا تھا

دل بھی یارب کئی دیے ہوتے

مرزا غالب

اس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی

آج پہلی بار اس سے میں نے بے وفائی کی

احمد فراز

اے غم زندگی نہ ہو ناراض

مجھ کو عادت ہے مسکرانے کی

عبد الحمید عدم

غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو

نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں

احمد فراز

تم اتنا جو مسکرا رہے ہو

کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو

کیفی اعظمی

مصیبت اور لمبی زندگانی

بزرگوں کی دعا نے مار ڈالا

مضطر خیرآبادی

ان کا غم ان کا تصور ان کی یاد

کٹ رہی ہے زندگی آرام سے

محشر عنایتی

میں رونا چاہتا ہوں خوب رونا چاہتا ہوں میں

پھر اس کے بعد گہری نیند سونا چاہتا ہوں میں

فرحت احساس

قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پاے کیوں

مرزا غالب

ایک وہ ہیں کہ جنہیں اپنی خوشی لے ڈوبی

ایک ہم ہیں کہ جنہیں غم نے ابھرنے نہ دیا

آزاد گلاٹی

غم ہے نہ اب خوشی ہے نہ امید ہے نہ یاس

سب سے نجات پائے زمانے گزر گئے

خمارؔ بارہ بنکوی

جب تجھے یاد کر لیا صبح مہک مہک اٹھی

جب ترا غم جگا لیا رات مچل مچل گئی

فیض احمد فیض

زمانے بھر کے غم یا اک ترا غم

یہ غم ہوگا تو کتنے غم نہ ہوں گے

حفیظ ہوشیارپوری

تجھ کو پا کر بھی نہ کم ہو سکی بے تابئ دل

اتنا آسان ترے عشق کا غم تھا ہی نہیں

فراق گورکھپوری

سکون دے نہ سکیں راحتیں زمانے کی

جو نیند آئی ترے غم کی چھاؤں میں آئی

پیام فتحپوری

اگر موجیں ڈبو دیتیں تو کچھ تسکین ہو جاتی

کناروں نے ڈبویا ہے مجھے اس بات کا غم ہے

دواکر راہی

ارے او آسماں والے بتا اس میں برا کیا ہے

خوشی کے چار جھونکے گر ادھر سے بھی گزر جائیں

ساحر لدھیانوی

کیا کہوں کس طرح سے جیتا ہوں

غم کو کھاتا ہوں آنسو پیتا ہوں

میر اثر

غم سے بکھرا نہ پائمال ہوا

میں تو غم سے ہی بے مثال ہوا

حسن نعیم

یہ غم نہیں ہے کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے

یہ رنج ہے کہ کوئی درمیان میں بھی نہ تھا

جمال احسانی

اک عشق کا غم آفت اور اس پہ یہ دل آفت

یا غم نہ دیا ہوتا یا دل نہ دیا ہوتا

چراغ حسن حسرت

مجھے خبر نہیں غم کیا ہے اور خوشی کیا ہے

یہ زندگی کی ہے صورت تو زندگی کیا ہے

احسن مارہروی

الٰہی ایک غم روزگار کیا کم تھا

کہ عشق بھیج دیا جان مبتلا کے لیے

حفیظ جالندھری

ان کا غم ان کا تصور ان کے شکوے اب کہاں

اب تو یہ باتیں بھی اے دل ہو گئیں آئی گئی

ساحر لدھیانوی

ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی

کس نے توڑا دل ہمارا یہ کہانی پھر سہی

مسرور انور

غم میں کچھ غم کا مشغلا کیجے

درد کی درد سے دوا کیجے

منظر لکھنوی

جمع ہم نے کیا ہے غم دل میں

اس کا اب سود کھائے جائیں گے

جون ایلیا

مری زندگی پہ نہ مسکرا مجھے زندگی کا الم نہیں

جسے تیرے غم سے ہو واسطہ وہ خزاں بہار سے کم نہیں

شکیل بدایونی

غم دل اب کسی کے بس کا نہیں

کیا دوا کیا دعا کرے کوئی

ہادی مچھلی شہری

اشک غم دیدۂ پر نم سے سنبھالے نہ گئے

یہ وہ بچے ہیں جو ماں باپ سے پالے نہ گئے

میر انیس

درد و غم دل کی طبیعت بن گئے

اب یہاں آرام ہی آرام ہے

جگر مراد آبادی

غم ہے آوارہ اکیلے میں بھٹک جاتا ہے

جس جگہ رہئے وہاں ملتے ملاتے رہئے

ندا فاضلی

غم مجھے دیتے ہو اوروں کی خوشی کے واسطے

کیوں برے بنتے ہو تم ناحق کسی کے واسطے

ریاضؔ خیرآبادی

تم عزیز اور تمہارا غم بھی عزیز

کس سے کس کا گلا کرے کوئی

ہادی مچھلی شہری

زندگی کتنی مسرت سے گزرتی یا رب

عیش کی طرح اگر غم بھی گوارا ہوتا

اختر شیرانی

غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک

مرزا غالب

غم کی دنیا رہے آباد شکیلؔ

مفلسی میں کوئی جاگیر تو ہے

شکیل بدایونی

دل گیا رونق حیات گئی

غم گیا ساری کائنات گئی

جگر مراد آبادی

وہ بھلا کیسے بتائے کہ غم ہجر ہے کیا

جس کو آغوش محبت کبھی حاصل نہ ہوا

حبیب احمد صدیقی

بھولے بسرے ہوئے غم پھر ابھر آتے ہیں کئی

آئینہ دیکھیں تو چہرے نظر آتے ہیں کئی

فضیل جعفری

زندگی دی حساب سے اس نے

اور غم بے حساب لکھا ہے

اعجاز انصاری

پھر مری آس بڑھا کر مجھے مایوس نہ کر

حاصل غم کو خدا را غم حاصل نہ بنا

حمایت علی شاعر

مسرت زندگی کا دوسرا نام

مسرت کی تمنا مستقل غم

جگر مراد آبادی

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے