جانے کیا کچھ ہو چھپا تم میں محبت کے سوا
ہم تسلی کے لئے پھر سے کھگالیں گے تمہیں
جو طلب پہ عہد وفا کیا تو وہ آبروئے وفا گئی
سر عام جب ہوئے مدعی تو ثواب صدق و وفا گیا
-
موضوع : وفا
سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت
مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں
وہ اب بھی دل دکھا دیتا ہے میرا
وہ میرا دوست ہے دشمن نہیں ہے
میری کوشش تو یہی ہے کہ یہ معصوم رہے
اور دل ہے کہ سمجھ دار ہوا جاتا ہے
پہلے صحرا سے مجھے لایا سمندر کی طرف
ناؤ پر کاغذ کی پھر مجھ کو سوار اس نے کیا
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
-
موضوعات : عشقاور 4 مزید
تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے
تشریح
اس شعر کو اکثر شارحین اور ناقدین نے ترقی پسند فکر کے آئینے میں دیکھا ہے۔ ان کی نظر میں ’’تم‘‘ انقلاب ، شبِ انتظار کشمکش اور استحصال اور تلاش جستجو کی علامت ہے۔ اس اعتبار سے شعر کا مضمون یہ بنتا ہے کہ انقلاب کے کوشاں لوگوں نے استحصالی عناصر کے خلاف ہر چند کی بہت سعی کی مگر ہر دور اپنے ساتھ نئے استحصالی عناصر کو لاتا ہے۔ مگر چونکہ فیض نے اپنی شاعری میں اردو شاعری کی رویت سے بغاوت نہیں کی اور روایتی تلازمات کو ہی برتا ہے اس لئے اس شعر کو اگر ترقی پسند سوچ کے دائرے سے نکال کر بھی دیکھاجائے تو اس میں ایک عاشق اپنے محبوب سے کہتا ہے کہ نہ تم آئے اور نہ انتظار کی رات گزری۔ اگرچہ دستور یہ ہے کہ ہر رات کی صبح ہوتی ہے مگر صبح کے بار بار آنے کے باوجود انتظار کی رات ختم نہیں ہوئی۔
شفق سوپوری
جیسی اب ہے ایسی حالت میں نہیں رہ سکتا
میں ہمیشہ تو محبت میں نہیں رہ سکتا
عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو
باؤلے ہو جاؤ گے مہتاب مت دیکھا کرو
-
موضوع : میر تقی میر
حالت حال سے بیگانہ بنا رکھا ہے
خود کو ماضی کا نہاں خانہ بنا رکھا ہے
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
-
موضوعات : انتظاراور 3 مزید
مجھ کو اکثر اداس کرتی ہے
ایک تصویر مسکراتی ہوئی
-
موضوع : تصویر
چلو اتنی تو آسانی رہے گی
ملیں گے اور پریشانی رہے گی
رکھی ہوئی ہے دونوں کی بنیاد ریت پر
صحرائے بے کراں کو سمندر لکھیں گے ہم
-
موضوعات : سمندراور 1 مزید
ہم ہیں اسیر ضبط اجازت نہیں ہمیں
رو پا رہے ہیں آپ بدھائی ہے روئیے
کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا نہایت غم رہا
-
موضوع : میر تقی میر
محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
گزر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہوگی
ہم ترا ہجر منانے کے لیے نکلے ہیں
شہر میں آگ لگانے کے لیے نکلے ہیں
علاج اپنا کراتے پھر رہے ہو جانے کس کس سے
محبت کر کے دیکھو نا محبت کیوں نہیں کرتے
-
موضوعات : روماناور 4 مزید
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
-
موضوع : آواز
بس محبت بس محبت بس محبت جان من
باقی سب جذبات کا اظہار کم کر دیجیے
-
موضوع : ہزار داستان عشق
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی
مجھ سے بچھڑ کے تو بھی تو روئے گا عمر بھر
یہ سوچ لے کہ میں بھی تری خواہشوں میں ہوں
-
موضوع : جدائی
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے
لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر
میں ورنہ وہی خلوتیٔ راز نہاں ہوں
-
موضوعات : تصوفاور 1 مزید