Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

واٹس ایپ پر اشعار

جانے کیا کچھ ہو چھپا تم میں محبت کے سوا

ہم تسلی کے لئے پھر سے کھگالیں گے تمہیں

ابھیشیک شکلا

جو طلب پہ عہد وفا کیا تو وہ آبروئے وفا گئی

سر عام جب ہوئے مدعی تو ثواب صدق و وفا گیا

فیض احمد فیض

سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت

مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں

احمد فراز

وہ اب بھی دل دکھا دیتا ہے میرا

وہ میرا دوست ہے دشمن نہیں ہے

ابھیشیک کمار امبر

میری کوشش تو یہی ہے کہ یہ معصوم رہے

اور دل ہے کہ سمجھ دار ہوا جاتا ہے

وکاس شرما راز

پہلے صحرا سے مجھے لایا سمندر کی طرف

ناؤ پر کاغذ کی پھر مجھ کو سوار اس نے کیا

امیر امام

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ

آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ

احمد فراز

جو گزاری نہ جا سکی ہم سے

ہم نے وہ زندگی گزاری ہے

جون ایلیا

تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے

تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے

تشریح

اس شعر کو اکثر شارحین اور ناقدین نے ترقی پسند فکر کے آئینے میں دیکھا ہے۔ ان کی نظر میں ’’تم‘‘ انقلاب ، شبِ انتظار کشمکش اور استحصال اور تلاش جستجو کی علامت ہے۔ اس اعتبار سے شعر کا مضمون یہ بنتا ہے کہ انقلاب کے کوشاں لوگوں نے استحصالی عناصر کے خلاف ہر چند کی بہت سعی کی مگر ہر دور اپنے ساتھ نئے استحصالی عناصر کو لاتا ہے۔ مگر چونکہ فیض نے اپنی شاعری میں اردو شاعری کی رویت سے بغاوت نہیں کی اور روایتی تلازمات کو ہی برتا ہے اس لئے اس شعر کو اگر ترقی پسند سوچ کے دائرے سے نکال کر بھی دیکھاجائے تو اس میں ایک عاشق اپنے محبوب سے کہتا ہے کہ نہ تم آئے اور نہ انتظار کی رات گزری۔ اگرچہ دستور یہ ہے کہ ہر رات کی صبح ہوتی ہے مگر صبح کے بار بار آنے کے باوجود انتظار کی رات ختم نہیں ہوئی۔

شفق سوپوری

فیض احمد فیض

جیسی اب ہے ایسی حالت میں نہیں رہ سکتا

میں ہمیشہ تو محبت میں نہیں رہ سکتا

ظفر اقبال

عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو

باؤلے ہو جاؤ گے مہتاب مت دیکھا کرو

احمد فراز

حالت حال سے بیگانہ بنا رکھا ہے

خود کو ماضی کا نہاں خانہ بنا رکھا ہے

عباس قمر

ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں

شکریہ مشورت کا چلتے ہیں

جون ایلیا

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

مرزا غالب

مجھ کو اکثر اداس کرتی ہے

ایک تصویر مسکراتی ہوئی

وکاس شرما راز

چلو اتنی تو آسانی رہے گی

ملیں گے اور پریشانی رہے گی

ظفر اقبال

میں اب ہر شخص سے اکتا چکا ہوں

فقط کچھ دوست ہیں اور دوست بھی کیا

جون ایلیا

رکھی ہوئی ہے دونوں کی بنیاد ریت پر

صحرائے بے کراں کو سمندر لکھیں گے ہم

امیر امام

ہم ہیں اسیر ضبط اجازت نہیں ہمیں

رو پا رہے ہیں آپ بدھائی ہے روئیے

عباس قمر

کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل

کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا

احمد فراز

غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا

دل کے جانے کا نہایت غم رہا

میر تقی میر

محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی

گزر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہوگی

منیر نیازی

ہم ترا ہجر منانے کے لیے نکلے ہیں

شہر میں آگ لگانے کے لیے نکلے ہیں

جون ایلیا

علاج اپنا کراتے پھر رہے ہو جانے کس کس سے

محبت کر کے دیکھو نا محبت کیوں نہیں کرتے

فرحت احساس

آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے

ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

منیر نیازی

تم سلامت رہو ہزار برس

ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

مرزا غالب

بس محبت بس محبت بس محبت جان من

باقی سب جذبات کا اظہار کم کر دیجیے

فرحت احساس

اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر

کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی

جون ایلیا

مجھ سے بچھڑ کے تو بھی تو روئے گا عمر بھر

یہ سوچ لے کہ میں بھی تری خواہشوں میں ہوں

احمد فراز

دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا

تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے

فیض احمد فیض

لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر

میں ورنہ وہی خلوتیٔ راز نہاں ہوں

میر تقی میر

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے