Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shakeb Jalali's Photo'

شکیب جلالی

1934 - 1966 | کراچی, پاکستان

معروف پاکستانی شاعر، کم عمری میں خود کشی کی

معروف پاکستانی شاعر، کم عمری میں خود کشی کی

شکیب جلالی کے اشعار

19K
Favorite

باعتبار

ہم سفر رہ گئے بہت پیچھے

آؤ کچھ دیر کو ٹھہر جائیں

یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے

تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے

لوگ دیتے رہے کیا کیا نہ دلاسے مجھ کو

زخم گہرا ہی سہی زخم ہے بھر جائے گا

ابھی ارمان کچھ باقی ہیں دل میں

مجھے پھر آزمایا جا رہا ہے

جو موتیوں کی طلب نے کبھی اداس کیا

تو ہم بھی راہ سے کنکر سمیٹ لائے بہت

پیار کی جوت سے گھر گھر ہے چراغاں ورنہ

ایک بھی شمع نہ روشن ہو ہوا کے ڈر سے

عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر

دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ

وہ الوداع کا منظر وہ بھیگتی پلکیں

پس غبار بھی کیا کیا دکھائی دیتا ہے

بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا

ہم جس پہ مر مٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا

وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت

میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت

اس شور تلاطم میں کوئی کس کو پکارے

کانوں میں یہاں اپنی صدا تک نہیں آتی

جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے

زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے

رہتا تھا سامنے ترا چہرہ کھلا ہوا

پڑھتا تھا میں کتاب یہی ہر کلاس میں

تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں

آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ

کیا کہوں دیدۂ تر یہ تو مرا چہرہ ہے

سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے

دل سا انمول رتن کون خریدے گا شکیبؔ

جب بکے گا تو یہ بے دام ہی بک جائے گا

لوگ دشمن ہوئے اسی کے شکیبؔ

کام جس مہربان سے نکلا

آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے

جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے

کوئی اس دل کا حال کیا جانے

ایک خواہش ہزار تہہ خانے

پہلے تو میری یاد سے آئی حیا انہیں

پھر آئنے میں چوم لیا اپنے آپ کو

اتر کے ناؤ سے بھی کب سفر تمام ہوا

زمیں پہ پاؤں دھرا تو زمین چلنے لگی

ساحل تمام اشک ندامت سے اٹ گیا

دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا

کہتا ہے آفتاب ذرا دیکھنا کہ ہم

ڈوبے تھے گہری رات میں کالے ہوئے نہیں

ملبوس خوش نما ہیں مگر جسم کھوکھلے

چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکان پر

آج بھی شاید کوئی پھولوں کا تحفہ بھیج دے

تتلیاں منڈلا رہی ہیں کانچ کے گلدان پر

شکیبؔ اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے

ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

ایک اپنا دیا جلانے کو

تم نے لاکھوں دیے بجھائے ہیں

بھیگی ہوئی اک شام کی دہلیز پہ بیٹھے

ہم دل کے سلگنے کا سبب سوچ رہے ہیں

جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے

مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے

وقت نے یہ کہا ہے رک رک کر

آج کے دوست کل کے بیگانے

مجھ سے ملنے شب غم اور تو کون آئے گا

میرا سایہ ہے جو دیوار پہ جم جائے گا

وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے

کس گھڑی سر پہ یہ لٹکی ہوئی تلوار گرے

کتنے ہی زخم ہیں مرے اک زخم میں چھپے

کتنے ہی تیر آنے لگے اک نشان پر

مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں

جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گرے

فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں

حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

کوئی بھولا ہوا چہرہ نظر آئے شاید

آئینہ غور سے تو نے کبھی دیکھا ہی نہیں

نہ اتنی تیز چلے سرپھری ہوا سے کہو

شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے

یوں تو سارا چمن ہمارا ہے

پھول جتنے بھی ہیں پرائے ہیں

سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح

دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں

گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا

ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا

بس ایک رات ٹھہرنا ہے کیا گلہ کیجے

مسافروں کو غنیمت ہے یہ سرائے بہت

درد کے موسم کا کیا ہوگا اثر انجان پر

دوستو پانی کبھی رکتا نہیں ڈھلوان پر

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے