Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Majrooh Sultanpuri's Photo'

مجروح سلطانپوری

1919 - 2000 | ممبئی, انڈیا

ہندوستان کے ممتاز ترین ترقی پسند غزل گو شاعر۔ ممتاز فلم نغمہ نگار۔ دادا صاحب پھالکے اعزاز سے سرفراز

ہندوستان کے ممتاز ترین ترقی پسند غزل گو شاعر۔ ممتاز فلم نغمہ نگار۔ دادا صاحب پھالکے اعزاز سے سرفراز

مجروح سلطانپوری کے اشعار

57.7K
Favorite

باعتبار

تجھے نہ مانے کوئی تجھ کو اس سے کیا مجروح

چل اپنی راہ بھٹکنے دے نکتہ چینوں کو

غم حیات نے آوارہ کر دیا ورنہ

تھی آرزو کہ ترے در پہ صبح و شام کریں

شب انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی

کبھی اک چراغ جلا دیا کبھی اک چراغ بجھا دیا

میں کہ ایک محنت کش میں کہ تیرگی دشمن

صبح نو عبارت ہے میرے مسکرانے سے

روک سکتا ہمیں زندان بلا کیا مجروحؔ

ہم تو آواز ہیں دیوار سے چھن جاتے ہیں

مجھے یہ فکر سب کی پیاس اپنی پیاس ہے ساقی

تجھے یہ ضد کہ خالی ہے مرا پیمانہ برسوں سے

تشنگی ہی تشنگی ہے کس کو کہیے مے کدہ

لب ہی لب ہم نے تو دیکھے کس کو پیمانہ کہیں

سر پر ہوائے ظلم چلے سو جتن کے ساتھ

اپنی کلاہ کج ہے اسی بانکپن کے ساتھ

پارۂ دل ہے وطن کی سرزمیں مشکل یہ ہے

شہر کو ویران یا اس دل کو ویرانہ کہیں

اب کارگہ دہر میں لگتا ہے بہت دل

اے دوست کہیں یہ بھی ترا غم تو نہیں ہے

مجروحؔ قافلے کی مرے داستاں یہ ہے

رہبر نے مل کے لوٹ لیا راہزن کے ساتھ

اشکوں میں رنگ و بوئے چمن دور تک ملے

جس دم اسیر ہو کے چلے گلستاں سے ہم

اب سوچتے ہیں لائیں گے تجھ سا کہاں سے ہم

اٹھنے کو اٹھ تو آئے ترے آستاں سے ہم

کہاں بچ کر چلی اے فصل گل مجھ آبلہ پا سے

مرے قدموں کی گلکاری بیاباں سے چمن تک ہے

کچھ بتا تو ہی نشیمن کا پتا

میں تو اے باد صبا بھول گیا

ایسے ہنس ہنس کے نہ دیکھا کرو سب کی جانب

لوگ ایسی ہی اداؤں پہ فدا ہوتے ہیں

ہم ہیں کعبہ ہم ہیں بت خانہ ہمیں ہیں کائنات

ہو سکے تو خود کو بھی اک بار سجدا کیجیے

پھر آئی فصل کہ مانند برگ آوارہ

ہمارے نام گلوں کے مراسلات چلے

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

ترے سوا بھی کہیں تھی پناہ بھول گئے

نکل کے ہم تری محفل سے راہ بھول گئے

رہتے تھے کبھی جن کے دل میں ہم جان سے بھی پیاروں کی طرح

بیٹھے ہیں انہیں کے کوچے میں ہم آج گنہ گاروں کی طرح

دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوش بہار

رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ

بچا لیا مجھے طوفاں کی موج نے ورنہ

کنارے والے سفینہ مرا ڈبو دیتے

مجروحؔ لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کا نام

ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہ گار کی طرح

زباں ہماری نہ سمجھا یہاں کوئی مجروحؔ

ہم اجنبی کی طرح اپنے ہی وطن میں رہے

ہٹ کے روئے یار سے تزئین عالم کر گئیں

وہ نگاہیں جن کو اب تک رائیگاں سمجھا تھا میں

فریب ساقئ محفل نہ پوچھئے مجروحؔ

شراب ایک ہے بدلے ہوئے ہیں پیمانے

ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ

جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے

گلوں سے بھی نہ ہوا جو مرا پتا دیتے

صبا اڑاتی پھری خاک آشیانے کی

بے تیشہ نظر نہ چلو راہ رفتگاں

ہر نقش پا بلند ہے دیوار کی طرح

دل کی تمنا تھی مستی میں منزل سے بھی دور نکلتے

اپنا بھی کوئی ساتھی ہوتا ہم بھی بہکتے چلتے چلتے

سنتے ہیں کہ کانٹے سے گل تک ہیں راہ میں لاکھوں ویرانے

کہتا ہے مگر یہ عزم جنوں صحرا سے گلستاں دور نہیں

وہ آ رہے ہیں سنبھل سنبھل کر نظارہ بے خود فضا جواں ہے

جھکی جھکی ہیں نشیلی آنکھیں رکا رکا دور آسماں ہے

بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کے لیے

ہم ایک بار تری آرزو بھی کھو دیتے

دست پر خوں کو کف دست نگاراں سمجھے

قتل گہہ تھی جسے ہم محفل یاراں سمجھے

جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے

تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی

الگ بیٹھے تھے پھر بھی آنکھ ساقی کی پڑی ہم پر

اگر ہے تشنگی کامل تو پیمانے بھی آئیں گے

سیر ساحل کر چکے اے موج ساحل سر نہ مار

تجھ سے کیا بہلیں گے طوفانوں کے بہلائے ہوئے

ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ

چاک کئے ہیں ہم نے عزیزو چار گریباں تم سے زیادہ

بڑھائی مے جو محبت سے آج ساقی نے

یہ کانپے ہاتھ کہ ساغر بھی ہم اٹھا نہ سکے

کوئی ہم دم نہ رہا کوئی سہارا نہ رہا

ہم کسی کے نہ رہے کوئی ہمارا نہ رہا

میرے ہی سنگ و خشت سے تعمیر بام و در

میرے ہی گھر کو شہر میں شامل کہا نہ جائے

جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے

جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے

مجھ سے کہا جبریل جنوں نے یہ بھی وحی الٰہی ہے

مذہب تو بس مذہب دل ہے باقی سب گمراہی ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے