Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Irfan Siddiqi's Photo'

عرفان صدیقی

1939 - 2004 | لکھنؤ, انڈیا

اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے نوکلاسیکی لہجے کے لیے معروف

اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے نوکلاسیکی لہجے کے لیے معروف

عرفان صدیقی کے اشعار

49K
Favorite

باعتبار

اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے

کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے

بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے

اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے

رات کو جیت تو پاتا نہیں لیکن یہ چراغ

کم سے کم رات کا نقصان بہت کرتا ہے

ہوشیاری دل نادان بہت کرتا ہے

رنج کم سہتا ہے اعلان بہت کرتا ہے

تم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہو آزاد

شام ہونے کو ہے اب گھر کی طرف لوٹ چلو

بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں

کہ چھو رہا ہوں تجھے اور پگھل رہا ہوں میں

جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا جانتا ہوں میں

جو کچھ نہیں ہوا وہ بتا کیوں نہیں ہوا

ہم تو رات کا مطلب سمجھیں خواب، ستارے، چاند، چراغ

آگے کا احوال وہ جانے جس نے رات گزاری ہو

سر اگر سر ہے تو نیزوں سے شکایت کیسی

دل اگر دل ہے تو دریا سے بڑا ہونا ہے

تم سنو یا نہ سنو ہاتھ بڑھاؤ نہ بڑھاؤ

ڈوبتے ڈوبتے اک بار پکاریں گے تمہیں

عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا

مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے

ہمیں تو خیر بکھرنا ہی تھا کبھی نہ کبھی

ہوائے تازہ کا جھونکا بہانہ ہو گیا ہے

سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا

سوچئے آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا

ایک لڑکا شہر کی رونق میں سب کچھ بھول جائے

ایک بڑھیا روز چوکھٹ پر دیا روشن کرے

ریت پر تھک کے گرا ہوں تو ہوا پوچھتی ہے

آپ اس دشت میں کیوں آئے تھے وحشت کے بغیر

شمع خیمہ کوئی زنجیر نہیں ہم سفراں

جس کو جانا ہے چلا جائے اجازت کیسی

اپنے کس کام میں لائے گا بتاتا بھی نہیں

ہم کو اوروں پہ گنوانا بھی نہیں چاہتا ہے

تم سے ملے تو خود سے زیادہ

تم کو اکیلا پایا ہم نے

میرے ہونے میں کسی طور سے شامل ہو جاؤ

تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ

میں چاہتا ہوں یہیں سارے فیصلے ہو جائیں

کہ اس کے بعد یہ دنیا کہاں سے لاؤں گا میں

روح کو روح سے ملنے نہیں دیتا ہے بدن

خیر یہ بیچ کی دیوار گرا چاہتی ہے

شعلۂ عشق بجھانا بھی نہیں چاہتا ہے

وہ مگر خود کو جلانا بھی نہیں چاہتا ہے

ہم سب آئینہ در آئینہ در آئینہ ہیں

کیا خبر کون کہاں کس کی طرف دیکھتا ہے

اس کی آنکھیں ہیں کہ اک ڈوبنے والا انساں

دوسرے ڈوبنے والے کو پکارے جیسے

ہم نے دیکھا ہی تھا دنیا کو ابھی اس کے بغیر

لیجئے بیچ میں پھر دیدۂ تر آ گئے ہیں

جانے کیا ٹھان کے اٹھتا ہوں نکلنے کے لیے

جانے کیا سوچ کے دروازے سے لوٹ آتا ہوں

کہا تھا تم نے کہ لاتا ہے کون عشق کی تاب

سو ہم جواب تمہارے سوال ہی کے تو ہیں

اب آ گئی ہے سحر اپنا گھر سنبھالنے کو

چلوں کہ جاگا ہوا رات بھر کا میں بھی ہوں

ہمارے دل کو اک آزار ہے ایسا نہیں لگتا

کہ ہم دفتر بھی جاتے ہیں غزل خوانی بھی کرتے ہیں

مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا

خیال ڈھونڈھتا رہتا ہے استعارہ کوئی

وہ جو اک شرط تھی وحشت کی اٹھا دی گئی کیا

میری بستی کسی صحرا میں بسا دی گئی کیا

اس کو منظور نہیں ہے مری گمراہی بھی

اور مجھے راہ پہ لانا بھی نہیں چاہتا ہے

نفرت کے خزانے میں تو کچھ بھی نہیں باقی

تھوڑا سا گزارے کے لیے پیار بچائیں

سب کو نشانہ کرتے کرتے

خود کو مار گرایا ہم نے

جان ہم کار محبت کا صلہ چاہتے تھے

دل سادہ کوئی مزدور ہے اجرت کیسی

میں جھپٹنے کے لیے ڈھونڈھ رہا ہوں موقع

اور وہ شوخ سمجھتا ہے کہ شرماتا ہوں

روپ کی دھوپ کہاں جاتی ہے معلوم نہیں

شام کس طرح اتر آتی ہے رخساروں پر

اجنبی جان کے کیا نام و نشاں پوچھتے ہو

بھائی ہم بھی اسی بستی کے نکالے ہوئے ہیں

کچھ عشق کے نصاب میں کمزور ہم بھی ہیں

کچھ پرچۂ سوال بھی آسان چاہیئے

آج تک ان کی خدائی سے ہے انکار مجھے

میں تو اک عمر سے کافر ہوں صنم جانتے ہیں

اے پرندو یاد کرتی ہے تمہیں پاگل ہوا

روز اک نوحہ سر شاخ شجر سنتا ہوں میں

میں تیری منزل جاں تک پہنچ تو سکتا ہوں

مگر یہ راہ بدن کی طرف سے آتی ہے

ہوائے کوفۂ نا مہرباں کو حیرت ہے

کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں

ہم تو صحرا ہوئے جاتے تھے کہ اس نے آ کر

شہر آباد کیا نہر صبا جاری کی

ایک میں ہوں کہ اس آشوب نوا میں چپ ہوں

ورنہ دنیا مرے زخموں کی زباں بولتی ہے

اڑے تو پھر نہ ملیں گے رفاقتوں کے پرند

شکایتوں سے بھری ٹہنیاں نہ چھو لینا

اداس خشک لبوں پر لرز رہا ہوگا

وہ ایک بوسہ جو اب تک مری جبیں پہ نہیں

بھول جاؤ گے کہ رہتے تھے یہاں دوسرے لوگ

کل پھر آباد کریں گے یہ مکاں دوسرے لوگ

جسم کی رعنائیوں تک خواہشوں کی بھیڑ ہے

یہ تماشا ختم ہو جائے تو گھر جائیں گے لوگ

مولیٰ، پھر مرے صحرا سے بن برسے بادل لوٹ گئے

خیر شکایت کوئی نہیں ہے اگلے برس برسا دینا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے