عرفان صدیقی کے اشعار
اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے
بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے
اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے
رات کو جیت تو پاتا نہیں لیکن یہ چراغ
کم سے کم رات کا نقصان بہت کرتا ہے
تم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہو آزاد
شام ہونے کو ہے اب گھر کی طرف لوٹ چلو
ہوشیاری دل نادان بہت کرتا ہے
رنج کم سہتا ہے اعلان بہت کرتا ہے
بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں
کہ چھو رہا ہوں تجھے اور پگھل رہا ہوں میں
-
موضوع : بدن
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
شمع خیمہ کوئی زنجیر نہیں ہم سفراں
جس کو جانا ہے چلا جائے اجازت کیسی
سر اگر سر ہے تو نیزوں سے شکایت کیسی
دل اگر دل ہے تو دریا سے بڑا ہونا ہے
ہم تو رات کا مطلب سمجھیں خواب، ستارے، چاند، چراغ
آگے کا احوال وہ جانے جس نے رات گزاری ہو
جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا جانتا ہوں میں
جو کچھ نہیں ہوا وہ بتا کیوں نہیں ہوا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ریت پر تھک کے گرا ہوں تو ہوا پوچھتی ہے
آپ اس دشت میں کیوں آئے تھے وحشت کے بغیر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہمیں تو خیر بکھرنا ہی تھا کبھی نہ کبھی
ہوائے تازہ کا جھونکا بہانہ ہو گیا ہے
-
موضوع : بہانہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تم سنو یا نہ سنو ہاتھ بڑھاؤ نہ بڑھاؤ
ڈوبتے ڈوبتے اک بار پکاریں گے تمہیں
-
موضوع : الوداع
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا
مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے
-
موضوع : دشمن
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا
سوچئے آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا
ایک لڑکا شہر کی رونق میں سب کچھ بھول جائے
ایک بڑھیا روز چوکھٹ پر دیا روشن کرے
-
موضوع : ماں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اپنے کس کام میں لائے گا بتاتا بھی نہیں
ہم کو اوروں پہ گنوانا بھی نہیں چاہتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اس کی آنکھیں ہیں کہ اک ڈوبنے والا انساں
دوسرے ڈوبنے والے کو پکارے جیسے
-
موضوع : آنکھ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تم سے ملے تو خود سے زیادہ
تم کو اکیلا پایا ہم نے
-
موضوع : تنہائی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میرے ہونے میں کسی طور سے شامل ہو جاؤ
تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ
-
موضوع : قاتل
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں چاہتا ہوں یہیں سارے فیصلے ہو جائیں
کہ اس کے بعد یہ دنیا کہاں سے لاؤں گا میں
ہم نے دیکھا ہی تھا دنیا کو ابھی اس کے بغیر
لیجئے بیچ میں پھر دیدۂ تر آ گئے ہیں
روح کو روح سے ملنے نہیں دیتا ہے بدن
خیر یہ بیچ کی دیوار گرا چاہتی ہے
-
موضوع : بدن
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کہا تھا تم نے کہ لاتا ہے کون عشق کی تاب
سو ہم جواب تمہارے سوال ہی کے تو ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم سب آئینہ در آئینہ در آئینہ ہیں
کیا خبر کون کہاں کس کی طرف دیکھتا ہے
شعلۂ عشق بجھانا بھی نہیں چاہتا ہے
وہ مگر خود کو جلانا بھی نہیں چاہتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہمارے دل کو اک آزار ہے ایسا نہیں لگتا
کہ ہم دفتر بھی جاتے ہیں غزل خوانی بھی کرتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اب آ گئی ہے سحر اپنا گھر سنبھالنے کو
چلوں کہ جاگا ہوا رات بھر کا میں بھی ہوں
جانے کیا ٹھان کے اٹھتا ہوں نکلنے کے لیے
جانے کیا سوچ کے دروازے سے لوٹ آتا ہوں
مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا
خیال ڈھونڈھتا رہتا ہے استعارہ کوئی
-
موضوع : بدن
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ جو اک شرط تھی وحشت کی اٹھا دی گئی کیا
میری بستی کسی صحرا میں بسا دی گئی کیا
-
موضوع : وحشت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نفرت کے خزانے میں تو کچھ بھی نہیں باقی
تھوڑا سا گزارے کے لیے پیار بچائیں
اس کو منظور نہیں ہے مری گمراہی بھی
اور مجھے راہ پہ لانا بھی نہیں چاہتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہوائے کوفۂ نا مہرباں کو حیرت ہے
کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں
آخر شب ہوئی آغاز کہانی اپنی
ہم نے پایا بھی تو اک عمر گنوا کر اس کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
روپ کی دھوپ کہاں جاتی ہے معلوم نہیں
شام کس طرح اتر آتی ہے رخساروں پر
سب کو نشانہ کرتے کرتے
خود کو مار گرایا ہم نے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اڑے تو پھر نہ ملیں گے رفاقتوں کے پرند
شکایتوں سے بھری ٹہنیاں نہ چھو لینا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جان ہم کار محبت کا صلہ چاہتے تھے
دل سادہ کوئی مزدور ہے اجرت کیسی
میں جھپٹنے کے لیے ڈھونڈھ رہا ہوں موقع
اور وہ شوخ سمجھتا ہے کہ شرماتا ہوں
ہم تو صحرا ہوئے جاتے تھے کہ اس نے آ کر
شہر آباد کیا نہر صبا جاری کی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم نے مدت سے الٹ رکھا ہے کاسہ اپنا
دست دادار ترے درہم و دینار پہ خاک
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کچھ عشق کے نصاب میں کمزور ہم بھی ہیں
کچھ پرچۂ سوال بھی آسان چاہیئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آج تک ان کی خدائی سے ہے انکار مجھے
میں تو اک عمر سے کافر ہوں صنم جانتے ہیں
اجنبی جان کے کیا نام و نشاں پوچھتے ہو
بھائی ہم بھی اسی بستی کے نکالے ہوئے ہیں
ایک میں ہوں کہ اس آشوب نوا میں چپ ہوں
ورنہ دنیا مرے زخموں کی زباں بولتی ہے
اے پرندو یاد کرتی ہے تمہیں پاگل ہوا
روز اک نوحہ سر شاخ شجر سنتا ہوں میں
میں تیری منزل جاں تک پہنچ تو سکتا ہوں
مگر یہ راہ بدن کی طرف سے آتی ہے
-
موضوع : بدن
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم بھی پتھر تم بھی پتھر سب پتھر ٹکراؤ
ہم بھی ٹوٹیں تم بھی ٹوٹو سب ٹوٹیں آمین
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اداس خشک لبوں پر لرز رہا ہوگا
وہ ایک بوسہ جو اب تک مری جبیں پہ نہیں