Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Fana Nizami Kanpuri's Photo'

فنا نظامی کانپوری

1922 - 1988 | کانپور, انڈیا

مقبول ترین شاعروں میں سے ایک، اپنے مخصوص ترنم کے لیے معروف

مقبول ترین شاعروں میں سے ایک، اپنے مخصوص ترنم کے لیے معروف

فنا نظامی کانپوری کے اشعار

22.8K
Favorite

باعتبار

میں اس کے سامنے سے گزرتا ہوں اس لیے

ترک تعلقات کا احساس مر نہ جائے

اس طرح رہبر نے لوٹا کارواں

اے فناؔ رہزن کو بھی صدمہ ہوا

اس موج کی ٹکر سے ساحل بھی لرزتا ہے

کچھ روز جو طوفاں کی آغوش میں پل جائے

وہ آنکھ کیا جو عارض و رخ پر ٹھہر نہ جائے

وہ جلوہ کیا جو دیدہ و دل میں اتر نہ جائے

کوئی سمجھے گا کیا راز گلشن

جب تک الجھے نہ کانٹوں سے دامن

دل سے اگر کبھی ترا ارمان جائے گا

گھر کو لگا کے آگ یہ مہمان جائے گا

رند جنت میں جا بھی چکے

واعظ محترم رہ گئے

دنیائے تصور ہم آباد نہیں کرتے

یاد آتے ہو تم خود ہی ہم یاد نہیں کرتے

کوئی پابند محبت ہی بتا سکتا ہے

ایک دیوانے کا زنجیر سے رشتہ کیا ہے

سب ہوں گے اس سے اپنے تعارف کی فکر میں

مجھ کو مرے سکوت سے پہچان جائے گا

تو پھول کی مانند نہ شبنم کی طرح آ

اب کے کسی بے نام سے موسم کی طرح آ

جب سفینہ موج سے ٹکرا گیا

ناخدا کو بھی خدا یاد آ گیا

ترتیب دے رہا تھا میں فہرست دشمنان

یاروں نے اتنی بات پہ خنجر اٹھا لیا

اک تجھ کو دیکھنے کے لیے بزم میں مجھے

اوروں کی سمت مصلحتاً دیکھنا پڑا

ترے وعدوں پہ کہاں تک مرا دل فریب کھائے

کوئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے

قید غم حیات بھی کیا چیز ہے فناؔ

راہ فرار مل نہ سکی عمر بھر پھرے

تو کچھ تو مرے ضبط محبت کا صلہ دے

ہنگام فناؔ دیدۂ پر نم کی طرح آ

ترک وطن کے بعد ہی قدر وطن ہوئی

برسوں مری نگاہ میں دیوار و در پھرے

میں چلا آیا ترا حسن تغافل لے کر

اب تری انجمن ناز میں رکھا کیا ہے

غم سے نازک ضبط غم کی بات ہے

یہ بھی دریا ہے مگر ٹھہرا ہوا

ساحل کے تماشائی ہر ڈوبنے والے پر

افسوس تو کرتے ہیں امداد نہیں کرتے

آج اس سے میں نے شکوہ کیا تھا شرارتاً

کس کو خبر تھی اتنا برا مان جائے گا

زندگی نام ہے اک جہد مسلسل کا فناؔ

راہرو اور بھی تھک جاتا ہے آرام کے بعد

رہتا ہے وہاں ذکر طہور و مئے کوثر

ہم آج سے کعبہ کو بھی مے خانہ کہیں گے

دنیا پہ ایسا وقت پڑے گا کہ ایک دن

انسان کی تلاش میں انسان جائے گا

اے جلوۂ جانانہ پھر ایسی جھلک دکھلا

حسرت بھی رہے باقی ارماں بھی نکل جائے

یوں دکھاتا ہے آنکھیں ہمیں باغباں

جیسے گلشن پہ کچھ حق ہمارا نہیں

غیرت اہل چمن کو کیا ہوا

چھوڑ آئے آشیاں جلتا ہوا

جلوہ ہو تو جلوہ ہو پردہ ہو تو پردہ ہو

توہین تجلی ہے چلمن سے نہ جھانکا کر

بے تکلف وہ اوروں سے ہیں

ناز اٹھانے کو ہم رہ گئے

اندھیروں کو نکالا جا رہا ہے

مگر گھر سے اجالا جا رہا ہے

مجھے رتبۂ غم بتانا پڑے گا

اگر میرے پیچھے زمانہ پڑے گا

موجوں کے اتحاد کا عالم نہ پوچھئے

قطرہ اٹھا اور اٹھ کے سمندر اٹھا لیا

گل تو گل خار تک چن لیے ہیں

پھر بھی خالی ہے گلچیں کا دامن

سہتا رہا جفائے دوست کہتا رہا ادائے دوست

میرے خلوص نے مرا جینا محال کر دیا

کچھ درد کی شدت ہے کچھ پاس محبت ہے

ہم آہ تو کرتے ہیں فریاد نہیں کرتے

ترک تعلقات کو اک لمحہ چاہیئے

لیکن تمام عمر مجھے سوچنا پڑا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے