Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دیوالی پر شعر

دیوالی کے مبارک موقع پر منتخب شاعری

مل کے ہوتی تھی کبھی عید بھی دیوالی بھی

اب یہ حالت ہے کہ ڈر ڈر کے گلے ملتے ہیں

نامعلوم

سبھی کے دیپ سندر ہیں ہمارے کیا تمہارے کیا

اجالا ہر طرف ہے اس کنارے اس کنارے کیا

حفیظ بنارسی

تھا انتظار منائیں گے مل کے دیوالی

نہ تم ہی لوٹ کے آئے نہ وقت شام ہوا

آنس معین

ہونے دو چراغاں محلوں میں کیا ہم کو اگر دیوالی ہے

مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم مزدور کی دنیا کالی ہے

جمیلؔ مظہری

آج کی رات دوالی ہے دیے روشن ہیں

آج کی رات یہ لگتا ہے میں سو سکتا ہوں

عزم شاکری

وہ دن بھی ہائے کیا دن تھے جب اپنا بھی تعلق تھا

دشہرے سے دوالی سے بسنتوں سے بہاروں سے

کیف بھوپالی

میلے میں گر نظر نہ آتا روپ کسی متوالی کا

پھیکا پھیکا رہ جاتا تہوار بھی اس دیوالی کا

ممتاز گورمانی

راہوں میں جان گھر میں چراغوں سے شان ہے

دیپاولی سے آج زمین آسمان ہے

عبید اعظم اعظمی

پیار کی جوت سے گھر گھر ہے چراغاں ورنہ

ایک بھی شمع نہ روشن ہو ہوا کے ڈر سے

شکیب جلالی

جو سنتے ہیں کہ ترے شہر میں دسہرا ہے

ہم اپنے گھر میں دوالی سجانے لگتے ہیں

جمنا پرشاد راہیؔ

کھڑکیوں سے جھانکتی ہے روشنی

بتیاں جلتی ہیں گھر گھر رات میں

محمد علوی

ہے دسہرے میں بھی یوں گر فرحت و زینت نظیرؔ

پر دوالی بھی عجب پاکیزہ تر تیوہار ہے

نظیر اکبرآبادی

ہستی کا نظارہ کیا کہئے مرتا ہے کوئی جیتا ہے کوئی

جیسے کہ دوالی ہو کہ دیا جلتا جائے بجھتا جائے

نشور واحدی

بیس برس سے اک تارے پر من کی جوت جگاتا ہوں

دیوالی کی رات کو تو بھی کوئی دیا جلایا کر

ماجد الباقری

داغوں کی بس دکھا دی دوالی میں روشنی

ہم سا نہ ہوگا کوئی جہاں میں دیوالیہ

حاتم علی مہر

جل بجھوں گا بھڑک کے دم بھر میں

میں ہوں گویا دیا دوالی کا

نادر شاہجہاں پوری

دوستو کیا کیا دوالی میں نشاط و عیش ہے

سب مہیا ہے جو اس ہنگام کے شایاں ہے شے

نظیر اکبرآبادی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے