Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ahmad Khayal's Photo'

احمد خیال

1979

احمد خیال کے اشعار

1K
Favorite

باعتبار

مہکتے پھول ستارے دمکتا چاند دھنک

ترے جمال سے کتنوں نے استفادہ کیا

یہ بھی اعجاز مجھے عشق نے بخشا تھا کبھی

اس کی آواز سے میں دیپ جلا سکتا تھا

تو جو یہ جان ہتھیلی پہ لیے پھرتا ہے

تیرا کردار کہانی سے نکل سکتا ہے

ہوا کے ہاتھ پہ چھالے ہیں آج تک موجود

مرے چراغ کی لو میں کمال ایسا تھا

میں تھا صدیوں کے سفر میں احمدؔ

اور صدیوں کا سفر تھا مجھ میں

عین ممکن ہے کہ بینائی مجھے دھوکہ دے

یہ جو شبنم ہے شرارہ بھی تو ہو سکتا ہے

یہ بھی تری شکست نہیں ہے تو اور کیا

جیسا تو چاہتا تھا میں ویسا نہیں بنا

تمہاری جیت میں پنہاں ہے میری جیت کہیں

تمہارے سامنے ہر بار ہارتا ہوا میں

سکوت توڑنے کا اہتمام کرنا چاہیئے

کبھی کبھار خود سے بھی کلام کرنا چاہیئے

کسی درویش کے حجرے سے ابھی آیا ہوں

سو ترے حکم کی تعمیل نہیں کرنی مجھے

کوئی حیرت ہے نہ اس بات کا رونا ہے ہمیں

خاک سے اٹھے ہیں سو خاک ہی ہونا ہے ہمیں

وہ زہر ہے فضاؤں میں کہ آدمی کی بات کیا

ہوا کا سانس لینا بھی محال کر دیا گیا

میرے کشکول میں ڈال اور ذرا عجز کہ میں

اتنی خیرات سے آگے نہیں جانے والا

وہ سر اٹھائے یہاں سے پلٹ گیا احمدؔ

میں سر جھکائے کھڑا ہوں سوال ایسا تھا

وہ دے رہا تھا طلب سے سوا سبھی کو خیالؔ

سو میں نے دامن دل اور کچھ کشادہ کیا

دشت میں وادئ شاداب کو چھو کر آیا

میں کھلی آنکھ حسیں خواب کو چھو کر آیا

کوئی تو دشت سمندر میں ڈھل گیا آخر

کسی کے ہجر میں رو رو کے بھر گیا تھا میں

دل کسی بزم میں جاتے ہی مچلتا ہے خیالؔ

سو طبیعت کہیں بے زار نہیں بھی ہوتی

بس چند لمحے پیشتر وہ پاؤں دھو کے پلٹا ہے

اور نور کا سیلاب سا اس آب جو میں آ گیا

دشت و جنوں کا سلسلہ میرے لہو میں آ گیا

یہ کس جگہ پہ میں تمہاری جستجو میں آ گیا

Recitation

بولیے