Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Alam Khursheed's Photo'

عالم خورشید

1959 | پٹنہ, انڈیا

اہم ما بعد جدید شاعر

اہم ما بعد جدید شاعر

عالم خورشید کے اشعار

5.2K
Favorite

باعتبار

عشق میں تہذیب کے ہیں اور ہی کچھ فلسفے

تجھ سے ہو کر ہم خفا خود سے خفا رہنے لگے

پوچھ رہے ہیں مجھ سے پیڑوں کے سوداگر

آب و ہوا کیسے زہریلی ہو جاتی ہے

بہت سکون سے رہتے تھے ہم اندھیرے میں

فساد پیدا ہوا روشنی کے آنے سے

رات گئے اکثر دل کے ویرانوں میں

اک سائے کا آنا جانا ہوتا ہے

میں نے بچپن میں ادھورا خواب دیکھا تھا کوئی

آج تک مصروف ہوں اس خواب کی تکمیل میں

ہاتھ پکڑ لے اب بھی تیرا ہو سکتا ہوں میں

بھیڑ بہت ہے اس میلے میں کھو سکتا ہوں میں

کچھ رستے مشکل ہی اچھے لگتے ہیں

کچھ رستوں کو ہم آسان نہیں کرتے

چاروں طرف ہیں شعلے ہمسائے جل رہے ہیں

میں گھر میں بیٹھا بیٹھا بس ہاتھ مل رہا ہوں

لکیر کھینچ کے بیٹھی ہے تشنگی مری

بس ایک ضد ہے کہ دریا یہیں پہ آئے گا

کبھی کبھی کتنا نقصان اٹھانا پڑتا ہے

ایروں غیروں کا احسان اٹھانا پڑتا ہے

دل روتا ہے چہرا ہنستا رہتا ہے

کیسا کیسا فرض نبھانا ہوتا ہے

پیچھے چھوٹے ساتھی مجھ کو یاد آ جاتے ہیں

ورنہ دوڑ میں سب سے آگے ہو سکتا ہوں میں

کسی کے رستے پہ کیسے نظریں جمائے رکھوں

ابھی تو کرنا مجھے ہے خود انتظار میرا

مانگتی ہے اب محبت اپنے ہونے کا ثبوت

اور میں جاتا نہیں اظہار کی تفصیل میں

آئے ہو نمائش میں ذرا دھیان بھی رکھنا

ہر شے جو چمکتی ہے چمک دار نہیں ہے

اپنی کہانی دل میں چھپا کر رکھتے ہیں

دنیا والوں کو حیران نہیں کرتے

تمام رنگ ادھورے لگے ترے آگے

سو تجھ کو لفظ میں تصویر کرتا رہتا ہوں

کوئی صورت بھی نہیں ملتی کسی صورت میں

کوزہ گر کیسا کرشمہ ترے اس چاک میں ہے

تبدیلیوں کا نشہ مجھ پر چڑھا ہوا ہے

کپڑے بدل رہا ہوں چہرہ بدل رہا ہوں

اس فیصلے سے خوش ہیں افراد گھر کے سارے

اپنی خوشی سے کب میں گھر سے نکل رہا ہوں

اب کتنی کار آمد جنگل میں لگ رہی ہے

وہ روشنی جو گھر میں بے کار لگ رہی تھی

کسی کو ڈھونڈتے ہیں ہم کسی کے پیکر میں

کسی کا چہرہ کسی سے ملاتے رہتے ہیں

تہذیب کی زنجیر سے الجھا رہا میں بھی

تو بھی نہ بڑھا جسم کے آداب سے آگے

اہل ہنر کی آنکھوں میں کیوں چبھتا رہتا ہوں

میں تو اپنی بے ہنری پر ناز نہیں کرتا

گزشتہ رت کا امیں ہوں نئے مکان میں بھی

پرانی اینٹ سے تعمیر کرتا رہتا ہوں

محبتوں کے کئی رنگ روپ ہوتے ہیں

فریب یار سے کوئی گلہ نہیں کرتے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے