aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Haidar Ali Aatish's Photo'

حیدر علی آتش

1778 - 1847 | لکھنؤ, انڈیا

مرزا غالب کے ہم عصر، انیسویں صدی کی اردو غزل کا روشن ستارہ

مرزا غالب کے ہم عصر، انیسویں صدی کی اردو غزل کا روشن ستارہ

حیدر علی آتش کی ٹاپ ٢٠ شاعری

بت خانہ توڑ ڈالیے مسجد کو ڈھائیے

دل کو نہ توڑیئے یہ خدا کا مقام ہے

نہ پاک ہوگا کبھی حسن و عشق کا جھگڑا

وہ قصہ ہے یہ کہ جس کا کوئی گواہ نہیں

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا

کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا

جو اعلی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں

صراحی سرنگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ

بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا

دوستوں سے اس قدر صدمے اٹھائے جان پر

دل سے دشمن کی عداوت کا گلہ جاتا رہا

فصل بہار آئی پیو صوفیو شراب

بس ہو چکی نماز مصلیٰ اٹھائیے

یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا

رات بھر طالع بیدار نے سونے نہ دیا

نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا

مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے

ہم اور بلبل بے تاب گفتگو کرتے

تشریح

یہ آتش کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ آرزو کے معنی تمنا، روبرو کے معنی آمنے سامنے، بے تاب کے معنی بے قرار ہے۔ بلبل بے تاب یعنی وہ بلبل جو بے قرار ہو جسے چین نہ ہو۔

اس شعر کا قریب کا مفہوم تو یہ ہے کہ ہمیں یہ تمنا تھی کہ ہم اے محبوب تجھے گل کے سامنے بٹھاتے اور پھر بلبل جو بے چین ہے اس سے بات چیت کرتے۔

لیکن اس میں در اصل شاعر یہ کہتا ہے کہ ہم نے ایک تمنا کی تھی کہ ہم اپنے محبوب کو پھول کے سامنے بٹھاتے اور پھر بلبل جو گل کے عشق میں بے تاب ہے اس سے گفتگو کرتے۔ مطلب یہ کہ ہماری خواہش تھی کہ ہم اپنے گل جیسے چہرے والے محبوب کو گل کے سامنے بٹھاتے اور پھر اس بلبل سے جو گل کے حسن کی وجہ سے اس کا دیوانہ بن گیا ہے اس سے گفتگو کرتے یعنی بحث کرتے اور پوچھتے کہ اے بلبل اب بتا کون خوبصورت ہے، تمہارا گل یا میرا محبوب۔ ظاہر ہے اس بات پر بحث ہوتی اور آخر پر بلبل جو گل کے حسن میں دیوانہ ہوگیا اگر میرے محبوب کے جمال کو دیکھے گا تو گل کی تعریف میں چہچہانا بھول جائے گا۔

شفق سوپوری

تشریح

یہ آتش کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ آرزو کے معنی تمنا، روبرو کے معنی آمنے سامنے، بے تاب کے معنی بے قرار ہے۔ بلبل بے تاب یعنی وہ بلبل جو بے قرار ہو جسے چین نہ ہو۔

اس شعر کا قریب کا مفہوم تو یہ ہے کہ ہمیں یہ تمنا تھی کہ ہم اے محبوب تجھے گل کے سامنے بٹھاتے اور پھر بلبل جو بے چین ہے اس سے بات چیت کرتے۔

لیکن اس میں در اصل شاعر یہ کہتا ہے کہ ہم نے ایک تمنا کی تھی کہ ہم اپنے محبوب کو پھول کے سامنے بٹھاتے اور پھر بلبل جو گل کے عشق میں بے تاب ہے اس سے گفتگو کرتے۔ مطلب یہ کہ ہماری خواہش تھی کہ ہم اپنے گل جیسے چہرے والے محبوب کو گل کے سامنے بٹھاتے اور پھر اس بلبل سے جو گل کے حسن کی وجہ سے اس کا دیوانہ بن گیا ہے اس سے گفتگو کرتے یعنی بحث کرتے اور پوچھتے کہ اے بلبل اب بتا کون خوبصورت ہے، تمہارا گل یا میرا محبوب۔ ظاہر ہے اس بات پر بحث ہوتی اور آخر پر بلبل جو گل کے حسن میں دیوانہ ہوگیا اگر میرے محبوب کے جمال کو دیکھے گا تو گل کی تعریف میں چہچہانا بھول جائے گا۔

شفق سوپوری

لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب

زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا

نہ پوچھ حال مرا چوب خشک صحرا ہوں

لگا کے آگ مجھے کارواں روانہ ہوا

آئے بھی لوگ بیٹھے بھی اٹھ بھی کھڑے ہوئے

میں جا ہی ڈھونڈتا تری محفل میں رہ گیا

رکھ کے منہ سو گئے ہم آتشیں رخساروں پر

دل کو تھا چین تو نیند آ گئی انگاروں پر

ہر شب شب برات ہے ہر روز روز عید

سوتا ہوں ہاتھ گردن مینا میں ڈال کے

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے

ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں

شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا

آفت جاں ہوئی اس روئے کتابی کی یاد

راس آیا نہ مجھے حافظ قرآں ہونا

پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا

زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے

قید مذہب کی گرفتاری سے چھٹ جاتا ہے

ہو نہ دیوانہ تو ہے عقل سے انساں خالی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے