خلیل الرحمن اعظمی کے اشعار
یوں تو مرنے کے لیے زہر سبھی پیتے ہیں
زندگی تیرے لیے زہر پیا ہے میں نے
نہ جانے کس کی ہمیں عمر بھر تلاش رہی
جسے قریب سے دیکھا وہ دوسرا نکلا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بھلا ہوا کہ کوئی اور مل گیا تم سا
وگرنہ ہم بھی کسی دن تمہیں بھلا دیتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جانے کیوں اک خیال سا آیا
میں نہ ہوں گا تو کیا کمی ہوگی
نکالے گئے اس کے معنی ہزار
عجب چیز تھی اک مری خامشی
تری وفا میں ملی آرزوئے موت مجھے
جو موت مل گئی ہوتی تو کوئی بات بھی تھی
مری نظر میں وہی موہنی سی مورت ہے
یہ رات ہجر کی ہے پھر بھی خوبصورت ہے
ہم نے تو خود کو بھی مٹا ڈالا
تم نے تو صرف بے وفائی کی
سنا رہا ہوں انہیں جھوٹ موٹ اک قصہ
کہ ایک شخص محبت میں کامیاب رہا
دیکھنے والا کوئی ملے تو دل کے داغ دکھاؤں
یہ نگری اندھوں کی نگری کس کو کیا سمجھاؤں
-
موضوع : شکوہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہزار طرح کی مے پی ہزار طرح کے زہر
نہ پیاس ہی بجھی اپنی نہ حوصلہ نکلا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کوئی وقت بتلا کہ تجھ سے ملوں
مری دوڑتی بھاگتی زندگی
یوں جی بہل گیا ہے تری یاد سے مگر
تیرا خیال تیرے برابر نہ ہو سکا
-
موضوع : یاد
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہوتی نہیں ہے یوں ہی ادا یہ نماز عشق
یاں شرط ہے کہ اپنے لہو سے وضو کرو
یہ تمنا نہیں اب داد ہنر دے کوئی
آ کے مجھ کو مرے ہونے کی خبر دے کوئی
تم مجھے چاہو نہ چاہو لیکن اتنا تو کرو
جھوٹ ہی کہہ دو کہ جینے کا بہانہ مل سکے
میرے دشمن نہ مجھ کو بھول سکے
ورنہ رکھتا ہے کون کس کو یاد
اب ان بیتے دنوں کو سوچ کر تو ایسا لگتا ہے
کہ خود اپنی محبت جیسے اک جھوٹی کہانی ہو
دنیا داری تو کیا آتی دامن سینا سیکھ لیا
مرنے کے تھے لاکھ بہانے پھر بھی جینا سیکھ لیا
عارض پہ تیرے میری محبت کی سرخیاں
میری جبیں پہ تیری وفا کا غرور ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نہیں اب کوئی خواب ایسا تری صورت جو دکھلائے
بچھڑ کر تجھ سے کس منزل پر ہم تنہا چلے آئے
ہنگامۂ حیات سے جاں بر نہ ہو سکا
یہ دل عجیب دل ہے کہ پتھر نہ ہو سکا
-
موضوع : دل
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہمیں تو راس نہ آئی کسی کی محفل بھی
کوئی خدا کوئی ہم سایۂ خدا نکلا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تمام یادیں مہک رہی ہیں ہر ایک غنچہ کھلا ہوا ہے
زمانہ بیتا مگر گماں ہے کہ آج ہی وہ جدا ہوا ہے
ہم نے خود اپنے آپ زمانے کی سیر کی
ہم نے قبول کی نہ کسی رہنما کی شرط
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ازل سے تھا وہ ہمارے وجود کا حصہ
وہ ایک شخص کہ جو ہم پہ مہربان ہوا
تیرے نہ ہو سکے تو کسی کے نہ ہو سکے
یہ کاروبار شوق مکرر نہ ہو سکا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم سا ملے کوئی تو کہیں اس سے حال دل
ہم بن گئے زمانے میں کیوں اپنی ہی مثال
کوئی تو بات ہوگی کہ کرنے پڑے ہمیں
اپنے ہی خواب اپنے ہی قدموں سے پائمال
یہیں پر دفن کر دو اس گلی سے اب کہاں جاؤں
کہ میرے پاس جو کچھ تھا یہیں آ کر لٹایا ہے
تری صدا کا ہے صدیوں سے انتظار مجھے
مرے لہو کے سمندر ذرا پکار مجھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ سچ ہے آج بھی ہے مجھے زندگی عزیز
لیکن جو تم ملو تو یہ سودا گراں نہیں
یہ اور بات کہ ترک وفا پہ مائل ہیں
تری وفا کی ہمیں آج بھی ضرورت ہے
میں کہاں ہوں کچھ بتا دے زندگی اے زندگی!
پھر صدا اپنی سنا دے زندگی اے زندگی!
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں اپنے گھر کو بلندی پہ چڑھ کے کیا دیکھوں
عروج فن مری دہلیز پر اتار مجھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اور تو کوئی بتاتا نہیں اس شہر کا حال
اشتہارات ہی دیوار کے پڑھ کر دیکھیں
نہ چاہو تم تو ہر اک گام کتنی دیواریں
جو چاہو تم تو ملن کی ہزار صورت ہے
میرؔ کا طرز اپنایا سب نے لیکن یہ انداز کہاں
اعظمیؔ صاحب آپ کی غزلیں سن سن کر سب حیراں ہیں
-
موضوع : تعلی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دنیا بھر کی رام کہانی کس کس ڈھنگ سے کہہ ڈالی
اپنی کہنے جب بیٹھے تو ایک ایک لفظ پگھلتا تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہمارے بعد اس مرگ جواں کو کون سمجھے گا
ارادہ ہے کہ اپنا مرثیہ بھی آپ ہی لکھ لیں
زہر پی کر بھی یہاں کس کو ملی غم سے نجات
ختم ہوتا ہے کہیں سلسلۂ رقص حیات
ہم پہ جو گزری ہے بس اس کو رقم کرتے ہیں
آپ بیتی کہو یا مرثیہ خوانی کہہ لو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کیوں ہر گھڑی زباں پہ ہو جرم و سزا کا ذکر
کیوں ہر عمل کی فکر میں خوف خدا کی شرط
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
لاکھ سادہ سہی تیری یہ جبیں کی تحریر
اس سے اکثر مرے افکار کو ملتی ہے زباں
آج ڈوبا ہوا خوشبو میں ہے پیراہن جاں
اے صبا کس نے یہ پوچھا ہے ترا نام و نشاں
تیری گلی سے چھٹ کے نہ جائے اماں ملی
اب کے تو میرا گھر بھی مرا گھر نہ ہو سکا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہائے اس دست کرم ہی سے ملے جور و جفا
مجھ کو آغاز محبت ہی میں مر جانا تھا
زندگی بھی مرے نالوں کی شناسا نکلی
دل جو ٹوٹا تو مرے گھر میں کوئی شمع جلی
نگاہ مہرباں اٹھتی تو ہے سب کی طرف لیکن
نہیں واقف ابھی سب لوگ رمز آشنائی سے