Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Khursheed Rizvi's Photo'

خورشید رضوی

1942 | پاکستان

معروف جدید شاعر

معروف جدید شاعر

خورشید رضوی کے اشعار

2.6K
Favorite

باعتبار

آخر کو ہنس پڑیں گے کسی ایک بات پر

رونا تمام عمر کا بے کار جائے گا

تو مجھے بنتے بگڑتے ہوئے اب غور سے دیکھ

وقت کل چاک پہ رہنے دے نہ رہنے دے مجھے

تمام عمر اکیلے میں تجھ سے باتیں کیں

تمام عمر ترے روبرو خموش رہے

یہ دور وہ ہے کہ بیٹھے رہو چراغ تلے

سبھی کو بزم میں دیکھو مگر دکھائی نہ دو

دو حرف تسلی کے جس نے بھی کہے اس کو

افسانہ سنا ڈالا تصویر دکھا ڈالی

بس دریچے سے لگے بیٹھے رہے اہل سفر

سبزہ جلتا رہا اور یاد وطن آتی رہی

جو شخص نہ رویا تھا تپتی ہوئی راہوں میں

دیوار کے سائے میں بیٹھا تو بہت رویا

موت کی ایک علامت ہے اگر دیکھا جائے

روح کا چار عناصر پہ سواری کرنا

اس اعتراف سے رس گھل رہا ہے کانوں میں

وہ اعتراف جو اس نے ابھی کیا بھی نہیں

آساں تو نہیں اپنی ہستی سے گزر جانا

اترا جو سمندر میں دریا تو بہت رویا

ہیں مری راہ کا پتھر مری آنکھوں کا حجاب

زخم باہر کے جو اندر نہیں جانے دیتے

ہم کہ اپنی راہ کا پتھر سمجھتے ہیں اسے

ہم سے جانے کس لیے دنیا نہ ٹھکرائی گئی

ہم تیری طبیعت کو خورشیدؔ نہیں سمجھے

پتھر نظر آتا تھا رویا تو بہت رویا

خورشیدؔ اب کہاں ہے کسی کو پتا نہیں

گزرا تو تھا کسی کا پتا پوچھتا ہوا

عکس نے میرے رلایا ہے مجھے

کوئی اپنا نظر آیا ہے مجھے

بہت سے روگ دعا مانگنے سے جاتے ہیں

یہ بات خوگر رسم دوا سے کون کہے

اب سے پہلے وہ مری ذات پہ طاری تو نہ تھا

دل میں رہتا تھا مگر خون میں جاری تو نہ تھا

تمہاری بزم سے تنہا نہیں اٹھا خورشیدؔ

ہجوم درد کا اک قافلہ رکاب میں تھا

مقام جن کا مورخ کے حافظے میں نہیں

شکست و فتح کے مابین مرحلے ہم لوگ

جو تمام عمر رہا سبب کی تلاش میں

وہ تری نگاہ میں بے سبب نہیں آ سکا

مرے اس اولیں اشک محبت پر نظر کر

یہ موتی سیپ میں پھر عمر بھر آتا نہیں ہے

پلٹ کر اشک سوئے چشم تر آتا نہیں ہے

یہ وہ بھٹکا مسافر ہے جو گھر آتا نہیں ہے

نسخۂ مرہم اکسیر بتانے والے

تو مرا زخم تو پہلے مجھے واپس کر دے

یا شکن آلود ہو جائے گی منظر کی جبیں

یا ہماری آنکھ کے شیشے میں بال آ جائے گا

مجھے بھی اپنا دل رفتہ یاد آتا ہے

کبھی کبھی کسی بازار سے گزرتے ہوئے

جسم کی چوکھٹ پہ خم دل کی جبیں کر دی گئی

آسماں کی چیز کیوں صرف زمیں کر دی گئی

بکھر گیا تو مجھے کوئی غم نہیں اس کا

کہ راز مجھ پہ کئی وا ہوئے بکھرتے ہوئے

Recitation

بولیے