Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Khwaja Meer Dard's Photo'

خواجہ میر درد

1721 - 1785 | دلی, انڈیا

صوفی شاعر، میرتقی میر کے ہم عصر ، ہندوستانی موسیقی کے گہرے علم کے لئے مشہور

صوفی شاعر، میرتقی میر کے ہم عصر ، ہندوستانی موسیقی کے گہرے علم کے لئے مشہور

خواجہ میر درد کے اشعار

31.9K
Favorite

باعتبار

سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں

زندگی گر کچھ رہی تو یہ جوانی پھر کہاں

نہیں شکوہ مجھے کچھ بے وفائی کا تری ہرگز

گلا تب ہو اگر تو نے کسی سے بھی نبھائی ہو

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے!

ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

اذیت مصیبت ملامت بلائیں

ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا

تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو

دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے

تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے

جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا

تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

جان سے ہو گئے بدن خالی

جس طرف تو نے آنکھ بھر دیکھا

ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے

میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے

کبھو رونا کبھو ہنسنا کبھو حیران ہو جانا

محبت کیا بھلے چنگے کو دیوانہ بناتی ہے

میں جاتا ہوں دل کو ترے پاس چھوڑے

مری یاد تجھ کو دلاتا رہے گا

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں

ان لبوں نے نہ کی مسیحائی

ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا

دشمنی نے سنا نہ ہووے گا

جو ہمیں دوستی نے دکھلایا

تمنا تری ہے اگر ہے تمنا

تری آرزو ہے اگر آرزو ہے

کہتے نہ تھے ہم دردؔ میاں چھوڑو یہ باتیں

پائی نہ سزا اور وفا کیجئے اس سے

ہر چند تجھے صبر نہیں درد ولیکن

اتنا بھی نہ ملیو کہ وہ بدنام بہت ہو

مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے

کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے

حال مجھ غم زدہ کا جس جس نے

جب سنا ہوگا رو دیا ہوگا

کھل نہیں سکتی ہیں اب آنکھیں مری

جی میں یہ کس کا تصور آ گیا

آگے ہی بن کہے تو کہے ہے نہیں نہیں

تجھ سے ابھی تو ہم نے وے باتیں کہی نہیں

قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے

اس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے

ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں

دل ہی نہیں رہا ہے جو کچھ آرزو کریں

دل بھی اے دردؔ قطرۂ خوں تھا

آنسوؤں میں کہیں گرا ہوگا

ایک ایمان ہے بساط اپنی

نہ عبادت نہ کچھ ریاضت ہے

ساقی مرے بھی دل کی طرف ٹک نگاہ کر

لب تشنہ تیری بزم میں یہ جام رہ گیا

شمع کے مانند ہم اس بزم میں

چشم تر آئے تھے دامن تر چلے

وحدت میں تیری حرف دوئی کا نہ آ سکے

آئینہ کیا مجال تجھے منہ دکھا سکے

گلی سے تری دل کو لے تو چلا ہوں

میں پہنچوں گا جب تک یہ آتا رہے گا

غیر کے دل میں نہ جا کیجئے گا

میری آنکھوں میں رہا کیجئے گا

یک بہ یک نام لے اٹھا میرا

جی میں کیا اس کے آ گیا ہوگا

دردؔ کے ملنے سے اے یار برا کیوں مانا

اس کو کچھ اور سوا دید کے منظور نہ تھا

آنکھیں بھی ہائے نزع میں اپنی بدل گئیں

سچ ہے کہ بے کسی میں کوئی آشنا نہیں

دردؔ کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب

کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے

تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے

جس لیے آئے تھے ہم کر چلے

باغ جہاں کے گل ہیں یا خار ہیں تو ہم ہیں

گر یار ہیں تو ہم ہیں اغیار ہیں تو ہم ہیں

روندے ہے نقش پا کی طرح خلق یاں مجھے

اے عمر رفتہ چھوڑ گئی تو کہاں مجھے

کمر خمیدہ نہیں بے سبب ضعیفی میں

زمین ڈھونڈتے ہیں وہ مزار کے قابل

دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے

آن میں کچھ ہے آن میں کچھ ہے

ظالم جفا جو چاہے سو کر مجھ پہ تو ولے

پچھتاوے پھر تو آپ ہی ایسا نہ کر کہیں

رات مجلس میں ترے حسن کے شعلے کے حضور

شمع کے منہ پہ جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا

ٹک خبر لے کہ ہر گھڑی ہم کو

اب جدائی بہت ستاتی ہے

باوجودے کہ پر و بال نہ تھے آدم کے

وہاں پہنچا کہ فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا

تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا

برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا

قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا

پر ترے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا

ذکر میرا ہی وہ کرتا تھا صریحاً لیکن

میں نے پوچھا تو کہا خیر یہ مذکور نہ تھا

بند احکام عقل میں رہنا

یہ بھی اک نوع کی حماقت ہے

سلطنت پر نہیں ہے کچھ موقوف

جس کے ہاتھ آئے جام وہ جم ہے

یارب یہ کیا طلسم ہے ادراک و فہم یاں

دوڑے ہزار آپ سے باہر نہ جا سکے

نالہ فریاد آہ اور زاری

آپ سے ہو سکا سو کر دیکھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے