Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Nazeer Akbarabadi's Photo'

نظیر اکبرآبادی

1735 - 1830 | آگرہ, انڈیا

میر تقی میر کے ہم عصر ممتاز شاعر، جنہوں نے ہندوستانی ثقافت اور تہواروں پر نظمیں لکھیں ، ہولی ، دیوالی اور دیگر موضوعات پر نظموں کے لئے مشہور

میر تقی میر کے ہم عصر ممتاز شاعر، جنہوں نے ہندوستانی ثقافت اور تہواروں پر نظمیں لکھیں ، ہولی ، دیوالی اور دیگر موضوعات پر نظموں کے لئے مشہور

نظیر اکبرآبادی کے اشعار

22.1K
Favorite

باعتبار

تھا ارادہ تری فریاد کریں حاکم سے

وہ بھی اے شوخ ترا چاہنے والا نکلا

جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو

یہ داغ وہ ہے کہ دشمن کو بھی نصیب نہ ہو

تھے ہم تو خود پسند بہت لیکن عشق میں

اب ہے وہی پسند جو ہو یار کو پسند

دل کی بیتابی نہیں ٹھہرنے دیتی ہے مجھے

دن کہیں رات کہیں صبح کہیں شام کہیں

مے پی کے جو گرتا ہے تو لیتے ہیں اسے تھام

نظروں سے گرا جو اسے پھر کس نے سنبھالا

کیوں نہیں لیتا ہماری تو خبر اے بے خبر

کیا ترے عاشق ہوئے تھے درد و غم کھانے کو ہم

جس کام کو جہاں میں تو آیا تھا اے نظیرؔ

خانہ خراب تجھ سے وہی کام رہ گیا

دور سے آئے تھے ساقی سن کے مے خانے کو ہم

بس ترستے ہی چلے افسوس پیمانے کو ہم

باغ میں لگتا نہیں صحرا سے گھبراتا ہے دل

اب کہاں لے جا کے بیٹھیں ایسے دیوانے کو ہم

میں ہوں پتنگ کاغذی ڈور ہے اس کے ہاتھ میں

چاہا ادھر گھٹا دیا چاہا ادھر بڑھا دیا

خدا کے واسطے گل کو نہ میرے ہاتھ سے لو

مجھے بو آتی ہے اس میں کسی بدن کی سی

بھلا دیں ہم نے کتابیں کہ اس پری رو کے

کتابی چہرے کے آگے کتاب ہے کیا چیز

تو جو کل آنے کو کہتا ہے نظیرؔ

تجھ کو معلوم ہے کل کیا ہوگا

بدن گل چہرہ گل رخسار گل لب گل دہن ہے گل

سراپا اب تو وہ رشک چمن ہے ڈھیر پھولوں کا

کس کو کہئے نیک اور ٹھہرائیے کس کو برا

غور سے دیکھا تو سب اپنے ہی بھائی بند ہیں

تمہارے ہجر میں آنکھیں ہماری مدت سے

نہیں یہ جانتیں دنیا میں خواب ہے کیا چیز

جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے

سچ تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے

کوچے میں اس کے بیٹھنا حسن کو اس کے دیکھنا

ہم تو اسی کو سمجھے ہیں باغ بھی اور بہار بھی

سب کتابوں کے کھل گئے معنی

جب سے دیکھی نظیرؔ دل کی کتاب

زمانے کے ہاتھوں سے چارہ نہیں ہے

زمانہ ہمارا تمہارا نہیں ہے

مے بھی ہے مینا بھی ہے ساغر بھی ہے ساقی نہیں

دل میں آتا ہے لگا دیں آگ مے خانے کو ہم

دیکھیں گے ہم اک نگاہ اس کو

کچھ ہوش اگر بجا رہے گا

ابھی کہیں تو کسی کو نہ اعتبار آوے

کہ ہم کو راہ میں اک آشنا نے لوٹ لیا

آتے ہی جو تم میرے گلے لگ گئے واللہ

اس وقت تو اس گرمی نے سب مات کی گرمی

بندے کے قلم ہاتھ میں ہوتا تو غضب تھا

صد شکر کہ ہے کاتب تقدیر کوئی اور

شہر دل آباد تھا جب تک وہ شہر آرا رہا

جب وہ شہر آرا گیا پھر شہر دل میں کیا رہا

اب تو ذرا سا گاؤں بھی بیٹی نہ دے اسے

لگتا تھا ورنہ چین کا داماد آگرہ

نہ اتنا ظلم کر اے چاندنی بہر خدا چھپ جا

تجھے دیکھے سے یاد آتا ہے مجھ کو ماہتاب اپنا

ہے دسہرے میں بھی یوں گر فرحت و زینت نظیرؔ

پر دوالی بھی عجب پاکیزہ تر تیوہار ہے

بے زری فاقہ کشی مفلسی بے سامانی

ہم فقیروں کے بھی ہاں کچھ نہیں اور سب کچھ ہے

مرتا ہے جو محبوب کی ٹھوکر پہ نظیرؔ آہ

پھر اس کو کبھی اور کوئی لت نہیں لگتی

اکیلا اس کو نہ چھوڑا جو گھر سے نکلا وہ

ہر اک بہانے سے میں اس صنم کے ساتھ رہا

حسن کے ناز اٹھانے کے سوا

ہم سے اور حسن عمل کیا ہوگا

کل شب وصل میں کیا جلد بجی تھیں گھڑیاں

آج کیا مر گئے گھڑیال بجانے والے

دل کی بے تابی ٹھہرنے نہیں دیتی مجھ کو

دن کہیں رات کہیں صبح کہیں شام کہیں

ہم حال تو کہہ سکتے ہیں اپنا پہ کہیں کیا

جب وہ ادھر آتے ہیں تو تنہا نہیں آتے

جو بات ہجر کی آتی تو اپنے دامن سے

وہ آنسو پونچھتا جاتا تھا اور میں روتا تھا

اشکوں کے تسلسل نے چھپایا تن عریاں

یہ آب رواں کا ہے نیا پیرہن اپنا

جسے مول لینا ہو لے لے خوشی سے

میں اس وقت دونوں جہاں بیچتا ہوں

طوفاں اٹھا رہا ہے مرے دل میں سیل اشک

وہ دن خدا نہ لائے جو میں آب دیدہ ہوں

دیکھ لے اس چمن دہر کو دل بھر کے نظیرؔ

پھر ترا کاہے کو اس باغ میں آنا ہوگا

اس بے وفا نے ہم کو اگر اپنے عشق میں

رسوا کیا خراب کیا پھر کسی کو کیا

خفا دیکھا ہے اس کو خواب میں دل سخت مضطر ہے

کھلا دے دیکھیے کیا کیا گل تعبیر خواب اپنا

جا پڑے چپ ہو کے جب شہر خموشاں میں نظیرؔ

یہ غزل یہ ریختہ یہ شعر خوانی پھر کہاں

یار کے آگے پڑھا یہ ریختہ جا کر نظیرؔ

سن کے بولا واہ واہ اچھا کہا اچھا کہا

عبث محنت ہے کچھ حاصل نہیں پتھر تراشی سے

یہی مضمون تھا فرہاد کے تیشے کی کھٹ کھٹ کا

جسم کیا روح کی ہے جولاں گاہ

روح کیا اک سوار پا بہ رکاب

منہ زرد و آہ سرد و لب خشک و چشم تر

سچی جو دل لگی ہے تو کیا کیا گواہ ہے

سرچشمۂ بقا سے ہرگز نہ آب لاؤ

حضرت خضر کہیں سے جا کر شراب لاؤ

غش کھا کے گرا پہلے ہی شعلے کی جھلک سے

موسیٰ کو بھلا کہئے تو کیا طور کی سوجھی

Recitation

بولیے