Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Rahat Indori's Photo'

راحت اندوری

1950 - 2020 | اندور, انڈیا

مقبول شاعر اور فلم نغمہ نگار

مقبول شاعر اور فلم نغمہ نگار

راحت اندوری کے اشعار

91.4K
Favorite

باعتبار

وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا

میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا

کالج کے سب بچے چپ ہیں کاغذ کی اک ناؤ لیے

چاروں طرف دریا کی صورت پھیلی ہوئی بیکاری ہے

تیری محفل سے جو نکلا تو یہ منظر دیکھا

مجھے لوگوں نے بلایا مجھے چھو کر دیکھا

میں مر جاؤں تو میری ایک الگ پہچان لکھ دینا

لہو ث میری پیشانی پے ہندستان لکھ دینا

اک ملاقات کا جادو کہ اترتا ہی نہیں

تری خوشبو مری چادر سے نہیں جاتی ہے

بوتلیں کھول کر تو پی برسوں

آج دل کھول کر بھی پی جائے

ہمارے میر تقی میرؔ نے کہا تھا کبھی

میاں یہ عاشقی عزت بگاڑ دیتی ہے

میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ

گیلی زمین کھود کے فرہاد ہو گئے

سورج ستارے چاند مرے ساتھ میں رہے

جب تک تمہارے ہاتھ مرے ہاتھ میں رہے

ہم اپنی جان کے دشمن کو اپنی جان کہتے ہیں

محبت کی اسی مٹی کو ہندستان کہتے ہیں

شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم

آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے

شام نے جب پلکوں پہ آتش دان لیا

کچھ یادوں نے چٹکی میں لوبان لیا

جا نمازوں کی طرح نور میں اجلائی سحر

رات بھر جیسے فرشتوں نے عبادت کی ہے

نئے کردار آتے جا رہے ہیں

مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے

چراغوں کا گھرانا چل رہا ہے

ہوا سے دوستانہ چل رہا ہے

میں کروٹوں کے نئے ذائقے لکھوں شب بھر

یہ عشق ہے تو کہاں زندگی عذاب کروں

سوئے رہتے ہیں اوڑھ کر خود کو

اب ضرورت نہیں رضائی کی

مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو

سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اسے

چاند سورج مری چوکھٹ پہ کئی صدیوں سے

روز لکھے ہوئے چہرے پہ سوال آتے ہیں

ستارو آؤ مری راہ میں بکھر جاؤ

یہ میرا حکم ہے حالانکہ کچھ نہیں ہوں میں

اب اتنی ساری شبوں کا حساب کون رکھے

بڑے ثواب کمائے گئے جوانی میں

گھر کے باہر ڈھونڈھتا رہتا ہوں دنیا

گھر کے اندر دنیا داری رہتی ہے

رات کی دھڑکن جب تک جاری رہتی ہے

سوتے نہیں ہم ذمہ داری رہتی ہے

یہ ہوائیں اڑ نہ جائیں لے کے کاغذ کا بدن

دوستو مجھ پر کوئی پتھر ذرا بھاری رکھو

آتے جاتے پل یہ کہتے ہیں ہمارے کان میں

کوچ کا اعلان ہونے کو ہے تیاری رکھو

ایک ہی ندی کے ہیں یہ دو کنارے دوستو

دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو

آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو

زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو

یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے

نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو

دوستی جب کسی سے کی جائے

دشمنوں کی بھی رائے لی جائے

اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے

عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے

ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے

کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے

بیمار کو مرض کی دوا دینی چاہئے

میں پینا چاہتا ہوں پلا دینی چاہئے

میں آ کر دشمنوں میں بس گیا ہوں

یہاں ہمدرد ہیں دو چار میرے

بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر

جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں

میں آخر کون سا موسم تمہارے نام کر دیتا

یہاں ہر ایک موسم کو گزر جانے کی جلدی تھی

روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے

چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے

اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو

دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے

روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں

روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے

مری خواہش ہے کہ آنگن میں نہ دیوار اٹھے

مرے بھائی مرے حصے کی زمیں تو رکھ لے

میں نے اپنی خشک آنکھوں سے لہو چھلکا دیا

اک سمندر کہہ رہا تھا مجھ کو پانی چاہئے

شہر کیا دیکھیں کہ ہر منظر میں جالے پڑ گئے

ایسی گرمی ہے کہ پیلے پھول کالے پڑ گئے

نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا

ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا

خیال تھا کہ یہ پتھراؤ روک دیں چل کر

جو ہوش آیا تو دیکھا لہو لہو ہم تھے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے