Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shariq Kaifi's Photo'

شارق کیفی

1961 | بریلی, انڈیا

برصغیر کے سب سے نمایاں معاصر شعرا میں سے ایک، نظم اور غزل دونوں میں یکساں تخلیقی صلاحیت کے حامل

برصغیر کے سب سے نمایاں معاصر شعرا میں سے ایک، نظم اور غزل دونوں میں یکساں تخلیقی صلاحیت کے حامل

شارق کیفی کے اشعار

12.7K
Favorite

باعتبار

گھر میں خود کو قید تو میں نے آج کیا ہے

تب بھی تنہا تھا جب محفل محفل تھا میں

رات تھی جب تمہارا شہر آیا

پھر بھی کھڑکی تو میں نے کھول ہی لی

وہ بات سوچ کے میں جس کو مدتوں جیتا

بچھڑتے وقت بتانے کی کیا ضرورت تھی

اب مجھے کون جیت سکتا ہے

تو مرے دل کا آخری ڈر تھا

ہیں اب اس فکر میں ڈوبے ہوئے ہم

اسے کیسے لگے روتے ہوئے ہم

کون کہے معصوم ہمارا بچپن تھا

کھیل میں بھی تو آدھا آدھا آنگن تھا

کون تھا وہ جس نے یہ حال کیا ہے میرا

کس کو اتنی آسانی سے حاصل تھا میں

کیسے ٹکڑوں میں اسے کر لوں قبول

جو مرا سارے کا سارا تھا کبھی

سب آسان ہوا جاتا ہے

مشکل وقت تو اب آیا ہے

کہاں سوچا تھا میں نے بزم آرائی سے پہلے

یہ میری آخری محفل ہے تنہائی سے پہلے

جھوٹ پر اس کے بھروسا کر لیا

دھوپ اتنی تھی کہ سایا کر لیا

موت نے ساری رات ہماری نبض ٹٹولی

ایسا مرنے کا ماحول بنایا ہم نے

فاصلہ رکھ کے بھی کیا حاصل ہوا

آج بھی اس کا ہی کہلاتا ہوں میں

نیا یوں ہے کہ ان دیکھا ہے سب کچھ

یہاں تک روشنی آتی کہاں تھی

آؤ گلے مل کر یہ دیکھیں

اب ہم میں کتنی دوری ہے

ساری دنیا سے لڑے جس کے لیے

ایک دن اس سے بھی جھگڑا کر لیا

دنیا شاید بھول رہی ہے

چاہت کچھ اونچا سنتی ہے

جن پر میں تھوڑا سا بھی آسان ہوا ہوں

وہی بتا سکتے ہیں کتنا مشکل تھا میں

اچانک ہڑبڑا کر نیند سے میں جاگ اٹھا ہوں

پرانا واقعہ ہے جس پہ حیرت اب ہوئی ہے

وہاں عید کیا وہاں دید کیا

جہاں چاند رات نہ آئی ہو

خواب ویسے تو اک عنایت ہے

آنکھ کھل جائے تو مصیبت ہے

بہت بھٹکے تو ہم سمجھے ہیں یہ بات

برا ایسا نہیں اپنا مکاں بھی

ابھی تو اچھی لگے گی کچھ دن جدائی کی رت

ابھی ہمارے لیے یہ سب کچھ نیا نیا ہے

میں کسی دوسرے پہلو سے اسے کیوں سوچوں

یوں بھی اچھا ہے وہ جیسا نظر آتا ہے مجھے

پتا نہیں یہ تمنائے قرب کب جاگی

مجھے تو صرف اسے سوچنے کی عادت تھی

بہت حسیں رات ہے مگر تم تو سو رہے ہو

نکل کے کمرے سے اک نظر چاندنی تو دیکھو

کم سے کم دنیا سے اتنا مرا رشتہ ہو جائے

کوئی میرا بھی برا چاہنے والا ہو جائے

پہلی بار وہ خط لکھا تھا

جس کا جواب بھی آ سکتا تھا

بہت گدلا تھا پانی اس ندی کا

مگر میں اپنا چہرہ دیکھ آیا

لرزتے کانپتے ہاتھوں سے بوڑھا

چلم میں پھر کوئی دکھ بھر رہا تھا

بہت ہمت کا ہے یہ کام شارقؔ

کہ شرماتے نہیں ڈرتے ہوئے ہم

بھیڑ میں جب تک رہتے ہیں جوشیلے ہیں

الگ الگ ہم لوگ بہت شرمیلے ہیں

کس طرح آئے ہیں اس پہلی ملاقات تلک

اور مکمل ہے جدا ہونے کی تیاری بھی

رکا محفل میں اتنی دیر تک میں

اجالوں کا بڑھاپا دیکھ آیا

یہی کمرہ تھا جس میں چین سے ہم جی رہے تھے

یہ تنہائی تو اتنی بے مروت اب ہوئی ہے

ایک دن ہم اچانک بڑے ہو گئے

کھیل میں دوڑ کر اس کو چھوتے ہوئے

پتہ تھا مجھ کو ملاقات غیر ممکن ہے

سو تیرا دھیان کیا اور گلاب چوم لیا

بینائی بھی کیا کیا دھوکے دیتی ہے

دور سے دیکھو سارے دریا نیلے ہیں

گفتگو کر کے پریشاں ہوں کہ لہجے میں ترے

وہ کھلا پن ہے کہ دیوار ہوا جاتا ہے

وہ بستی ناخداؤں کی تھی لیکن

ملے کچھ ڈوبنے والے وہاں بھی

تسلی اب ہوئی کچھ دل کو میرے

تری گلیوں کو سونا دیکھ آیا

خموشی بس خموشی تھی اجازت اب ہوئی ہے

اشاروں کو ترے پڑھنے کی جرأت اب ہوئی ہے

یہ سچ ہے دنیا بہت حسیں ہے

مگر مری عمر کی نہیں ہے

فیصلے اوروں کے کرتا ہوں

اپنی سزا کٹتی رہتی ہے

ہو سبب کچھ بھی مرے آنکھ بچانے کا مگر

صاف کر دوں کہ نظر کم نہیں آتا ہے مجھے

عجب لہجے میں کرتے تھے در و دیوار باتیں

مرے گھر کو بھی شاید میری عادت اب ہوئی ہے

ایک مدت ہوئی گھر سے نکلے ہوئے

اپنے ماحول میں خود کو دیکھے ہوئے

عمر بھر کس نے بھلا غور سے دیکھا تھا مجھے

وقت کم ہو تو سجا دیتی ہے بیماری بھی

قرب کا اس کے اٹھا کر فائدہ

ہجر کا ساماں اکٹھا کر لیا

کبھی خود کو چھو کر نہیں دیکھتا ہوں

خدا جانے کس وہم میں مبتلا ہوں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے