Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Wazir Agha's Photo'

وزیر آغا

1922 - 2010 | سرگودھا, پاکستان

پاکستان کے ممتاز ترین نقادوں میں معروف

پاکستان کے ممتاز ترین نقادوں میں معروف

وزیر آغا کے اشعار

3.7K
Favorite

باعتبار

وہ خوش کلام ہے ایسا کہ اس کے پاس ہمیں

طویل رہنا بھی لگتا ہے مختصر رہنا

کھلی کتاب تھی پھولوں بھری زمیں میری

کتاب میری تھی رنگ کتاب اس کا تھا

اتنا نہ پاس آ کہ تجھے ڈھونڈتے پھریں

اتنا نہ دور جا کے ہمہ وقت پاس ہو

یا ابر کرم بن کے برس خشک زمیں پر

یا پیاس کے صحرا میں مجھے جینا سکھا دے

سفر طویل سہی حاصل سفر یہ ہے

وہاں کو بھول گئے اور یہاں کو پہچانا

اس کی آواز میں تھے سارے خد و خال اس کے

وہ چہکتا تھا تو ہنستے تھے پر و بال اس کے

عجب طرح سے گزاری ہے زندگی ہم نے

جہاں میں رہ کے نہ کار جہاں کو پہچانا

یا رب تری رحمت کا طلب گار ہے یہ بھی

تھوڑی سی مرے شہر کو بھی آب و ہوا دے

آہستہ بات کر کہ ہوا تیز ہے بہت

ایسا نہ ہو کہ سارا نگر بولنے لگے

ریت پر چھوڑ گیا نقش ہزاروں اپنے

کسی پاگل کی طرح نقش مٹانے والا

بند اس نے کر لیے تھے گھر کے دروازے اگر

پھر کھلا کیوں رہ گیا تھا ایک در میرے لیے

منظر تھا راکھ اور طبیعت اداس تھی

ہر چند تیری یاد مرے آس پاس تھی

چلو اپنی بھی جانب اب چلیں ہم

یہ رستہ دیر سے سونا پڑا ہے

یہ کس حساب سے کی تو نے روشنی تقسیم

ستارے مجھ کو ملے ماہتاب اس کا تھا

خود اپنے غم ہی سے کی پہلے دوستی ہم نے

اور اس کے بعد غم دوستاں کو پہچانا

لازم کہاں کہ سارا جہاں خوش لباس ہو

میلا بدن پہن کے نہ اتنا اداس ہو

کیسے کہوں کہ میں نے کہاں کا سفر کیا

آکاش بے چراغ زمیں بے لباس تھی

دئیے بجھے تو ہوا کو کیا گیا بد نام

قصور ہم نے کیا احتساب اس کا تھا

عمر بھر اس نے بے وفائی کی

عمر سے بھی وہ باوفا نہ رہا

دھوپ کے ساتھ گیا ساتھ نبھانے والا

اب کہاں آئے گا وہ لوٹ کے آنے والا

ایسے بڑھے کہ منزلیں رستے میں بچھ گئیں

ایسے گئے کہ پھر نہ کبھی لوٹنا ہوا

وہ اپنی عمر کو پہلے پرو لیتا ہے ڈوری میں

پھر اس کے بعد گنتی عمر کی دن رات کرتا ہے

کہنے کو چند گام تھا یہ عرصۂ حیات

لیکن تمام عمر ہی چلنا پڑا تجھے

سمیٹتا رہا خود کو میں عمر بھر لیکن

بکھیرتا رہا شبنم کا سلسلہ مجھ کو

جبین سنگ پہ لکھا مرا فسانہ گیا

میں رہ گزر تھا مجھے روند کر زمانہ گیا

تھی نیند میری مگر اس میں خواب اس کا تھا

بدن مرا تھا بدن میں عذاب اس کا تھا

اب تو آرام کریں سوچتی آنکھیں میری

رات کا آخری تارا بھی ہے جانے والا

کرنا پڑے گا اپنے ہی سائے میں اب قیام

چاروں طرف ہے دھوپ کا صحرا بچھا ہوا

یہ کیسی آنکھ تھی جو رو پڑی ہے

یہ کیسا خواب تھا جو بجھ گیا ہے

پہنا دے چاندنی کو قبا اپنے جسم کی

اس کا بدن بھی تیری طرح بے لباس ہو

قسمت ہی میں روشنی نہیں تھی

بادل تو کبھی کا چھٹ رہا تھا

کس کی خوشبو نے بھر دیا تھا اسے

اس کے اندر کوئی خلا نہ رہا

سکھا دیا ہے زمانے نے بے بصر رہنا

خبر کی آنچ میں جل کر بھی بے خبر رہنا

تیرگی بے آبرو تھی اور تجلی بے وقار

اک تھکا ہارا سا جگنو کس قدر دلگیر تھا

Recitation

بولیے