Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تصویری شاعری

تصویری شاعری کا یہ پہلا ایسا آن لائن ذخیرہ ہے جس میں ہزاروں خوبصورت اشعار کو ان کے معنی کی مناسبت سے تصویروں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہ دیدہ زیب پیش کش نہ صرف شعر کو سمجھنے میں معاون ہوگی بلکہ اس کے ذریعے معنی کے نیےعلاقوں تک رسائی ممکن ہو سکے گی۔ ان شعروں کو پڑھیے، دیکھیے اور شعر فہموں کے ساتھ شئیر کیجیے۔

سرہانے میرؔ کے کوئی نہ بولو

ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

تشریح

میرؔ کے اس شعر میں کمال کی ڈرامائی صورت پائی جاتی ہے۔ اس ڈرامائی صورت میں کم از کم تین کردار فرض کئے جاسکتے ہیں۔اگر یہ تصور کیا جائے کہ شعری کردار کئی لوگوں سے مخاطب ہیں تو کرداروں کا تعین کرنا مشکل ہے۔ یعنی یہ کہنا کہ کتنے لوگ میر کی مزاج پرسی کے لئے آئے ہیں، واضح نہیں ہوتا۔ اس شعر میں لفظ ’’ٹک‘‘ (یعنی ذرا سا)کو کلیدی حیثیت حاصل ہے کیونکہ اسی سے شعر میں تاثیر پیدا کی گئی ہے۔ ’’روتے روتے‘‘سے جو مسلسل گریے کی کیفیت پیدا کی گئی ہے وہ بھی کم دلچسپ نہیں۔

شعر ایک منظر کی کیفیت بیان کرتا ہے۔ مخاطب کا لہجہ انتباہی بھی ہوسکتا ہے اور التماسی بھی۔ دوسری صورت یہ بنتی ہے کہ خطاب صرف ان لوگوں سے کیا گیا ہے جو میرؔ کے سرہانے بیٹھ کر یا تو گفتگو کرتے ہیں یا پھر میرؔ کی طبیعت کا حال مخاطب سے پوچھ رہے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ جو لوگ مزاج پرسی سرہانے بیٹھ کر کرتے ہیں وہ بیمار کے زیادہ قریبی ہوتے ہیں۔ بہرحال مخاطب کا میر کے سرہانے بیٹھ کر گفتگو کرنے والوں سے کہنا کہ میر کے سرہانے کوئی نہ بولو سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ میر ذرا سی آواز سے بھی جاگ سکتے ہیں۔ ’ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے‘ میں کمال کی ڈرامائیت ہے۔ یعنی مخاطب گواہ ہے کہ میر نے بہت دیر تک گریہ کیا اب تھک ہار کے ابھی ذرا سا سوگئے ہیں۔ ذرا سا جب کہا تو گویا میر ابھی اٹھ کر پھر سے رونا شروع کریں گے۔

شفق سوپوری

تشریح

میرؔ کے اس شعر میں کمال کی ڈرامائی صورت پائی جاتی ہے۔ اس ڈرامائی صورت میں کم از کم تین کردار فرض کئے جاسکتے ہیں۔اگر یہ تصور کیا جائے کہ شعری کردار کئی لوگوں سے مخاطب ہیں تو کرداروں کا تعین کرنا مشکل ہے۔ یعنی یہ کہنا کہ کتنے لوگ میر کی مزاج پرسی کے لئے آئے ہیں، واضح نہیں ہوتا۔ اس شعر میں لفظ ’’ٹک‘‘ (یعنی ذرا سا)کو کلیدی حیثیت حاصل ہے کیونکہ اسی سے شعر میں تاثیر پیدا کی گئی ہے۔ ’’روتے روتے‘‘سے جو مسلسل گریے کی کیفیت پیدا کی گئی ہے وہ بھی کم دلچسپ نہیں۔

شعر ایک منظر کی کیفیت بیان کرتا ہے۔ مخاطب کا لہجہ انتباہی بھی ہوسکتا ہے اور التماسی بھی۔ دوسری صورت یہ بنتی ہے کہ خطاب صرف ان لوگوں سے کیا گیا ہے جو میرؔ کے سرہانے بیٹھ کر یا تو گفتگو کرتے ہیں یا پھر میرؔ کی طبیعت کا حال مخاطب سے پوچھ رہے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ جو لوگ مزاج پرسی سرہانے بیٹھ کر کرتے ہیں وہ بیمار کے زیادہ قریبی ہوتے ہیں۔ بہرحال مخاطب کا میر کے سرہانے بیٹھ کر گفتگو کرنے والوں سے کہنا کہ میر کے سرہانے کوئی نہ بولو سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ میر ذرا سی آواز سے بھی جاگ سکتے ہیں۔ ’ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے‘ میں کمال کی ڈرامائیت ہے۔ یعنی مخاطب گواہ ہے کہ میر نے بہت دیر تک گریہ کیا اب تھک ہار کے ابھی ذرا سا سوگئے ہیں۔ ذرا سا جب کہا تو گویا میر ابھی اٹھ کر پھر سے رونا شروع کریں گے۔

شفق سوپوری

میر تقی میر

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے